لہری
لہری | |
---|---|
سفیر ال��ہ صدیقی | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 2 جنوری 1929 کان پورانڈیا |
وفات | ستمبر 13، 2012 کراچی، پاکستان |
(عمر 83 سال)
رہائش | کراچی، پاکستان |
قومیت | پاکستانی |
مذہب | اسلام |
عملی زندگی | |
تعليم | انٹر (اسلامیہ کالج) |
پیشہ | اداکاری |
دور فعالیت | 1956 تا 1986 |
وجہ شہرت | مزاحیہ فنکار |
ٹیلی ویژن | آنگن ٹیڑھا |
اعزازات | |
12 نگارایوارڈ و دیگر | |
IMDB پر صفحات | |
درستی - ترمیم |
لہری معروف پاکستانی مزاحیہ اداکار جن کا اصل نام سفیر اللہ صدیقی، 2جنوری 1929ء میں پیدا ہوئے۔ اپنے فلمی کیریئر کا آغاز پچاس کی دہائی میں بلیک اینڈ وائٹ فلموں سے کیا۔[1]
منور ظریف، نذر اور آصف جاہ کے بعد لہری کے لیے فلم انڈسٹری میں اپنے لیے جگہ بنانا کسی معرکے سے کم نہ تھا۔ لہری سے پہلے اداکار یعقوب بہترین مزاحیہ اداکار کہلاتے تھے مگر لہری نے اپنی محنت اور کام کی لگن سے یعقوب کو بہت پیچھے چھوڑدیا۔[2]
حالات زندگی
[ترمیم]ابتدائی حالات
[ترمیم]وہ تقسیم ہند سے قبل بھارت میں پیداہوئے تاہم تقسیم کے فوراًبعد پاکستان ہجرت کرکے کراچی میں آبسے۔ انھوں نے پاکستان آکر پہلی ملازمت اسٹینو ٹائپسٹ کی حیثیت سے کی۔ دن بھر ڈیوٹی انجام دینے کے بعد شام کے اوقات میں وہ صدر میں ہوزری کا سامان فروخت کرنے لگے۔ انھیں اداکاری کا شوق تھا مگر اس شوق کو جلا بخشنے کے لیے انھیں درست سمت نہیں مل رہی تھی۔
کیرئر کا آغاز
[ترمیم]لہری نے فن کی دنیا میں پہلا قدم اسلامیہ کالج میں ایک فنکشن میں 'مریض عشق' کے نام ایک ڈرامے میں پرفامنس دے کر کیا جس میں ان کو بے انتہا پزیرائی ملی اپنی اس شاندار کارگردگی سفیر اللہ ہو گئے خوش فہمی کا شکار اور پہنچ گئے ریڈیو پاکستان پر ریڈیو پاکستان کے پہلے آڈیشن میں فیل قرار دے دیا گیا لیکن باہمت اور محنتی انسان نے ہمت نہیں ہاری اور انتھک محنت کے بعد آخر قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہو گئی۔ 1955ء میں لچھو سیٹھ (شیخ لطیف فلم ایکسچینج والے) نے ایک فلم 'انوکھی' بنانے کا اعلان کیا جس میں ہیروئن کا کردار ادا کرنے کے لیے ان کی بھانجی ��یلا رمانی بھارت سے پاکستان تشریف لائیں اس طرح سفیر اللہ کو اس فلم میں اپنی خداد داد صلاحیتوں کو پردہٴ سیمیں پر پیش کرنے کا موقع ملا اور ان کی یہ پہلی فلم 1956ء کے اوائل میں نمائش کے لیے پیش کردی گئی۔
عروج
[ترمیم]ان کی پہلی فلم ’انوکھی‘ تھی جو سنہ 1956 میں ریلیز ہوئی۔ ان کی آخری فلم ’دھنک‘ تھی جو سنہ 1986 میں بنی تھی۔ ان کا فلمی کیریئر تیس سال پر محیط ہے اور ایک اندازے کے مطابق انھوں نے 220 فلموں میں کام کیا جن میں تین پنجابی فلموں کے علاوہ باقی سب اردو فلمیں تھیں۔ سفیر اللہ لہری کو سنہ 1964 سے 1986 تک کا بہترین مزاحیہ قرار دیتے ہوئے نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔
کا رہائے نمایاں
[ترمیم]فلمیں
[ترمیم]- انوکھی (1956ء)
- انسان بدلتا ہے،
- رات کے راہی،
- فیصلہ، جوکر،
- کون کسی کا، آگ،
- توبہ،
- پیغام، (1964ء ایوارڈ یافتہ)
- کنیز، (1965ء ایوارڈ یافتہ)
- جیسے جانتے نہیں،
- دوسری ماں،
- اِک نگینہ،
- اِک مسافراِک حسینہ،
- چھوٹی امی،
- میں وہ نہیں(1967ء ایوارڈ یافتہ)
- تم ملے پیار ملا،
- صاعقہ (1968ء ایوارڈ یافتہ)
- بہادر،
- نوکری،
- بہاریں پھر بھی آئیں گی،
- افشاں،
- رم جہم،
- بالم،
- جلتے سورج کے نیچے،
- پھول میرے گلشن کا،
- انجان،
- پرنس،
- ضمیر،
- آنچ،
- صائمہ، (1985ء ایوارڈ یافتہ)
- دل لگی، (1972ء ایوارڈ یافتہ)
- آگ کا دریا،
- ہمراز،
- دیور بھابھی،
- داغ،
- نئی لیلیٰ نیا مجنوں، (1969ء ایوارڈ یافتہ)
- بندھن،
- دھماکا (1974ء فلم)، (13 دسمبر 1974ء)
- آج اور کل (1976ء ایوارڈ یافتہ)
- تہذیب،
- دلہن رانی،
- زبیدہ،
- زنجیر،
- نیا انداز، (1979ء ایوارڈ یافتہ)
- موم کی گڑیا،
- جلے نہ کیوں پروانہ،
- گھرہستی،
- رسوائی،
- بدل گیا انسان،
- انجمن (1970ء ایوارڈ یافتہ)
- اپنا پرایا،
- دو باغی،
- سوسائٹی،
- انہونی،
- ننھا فرشتہ،
- ایثار،
- دامن،
- آنچل،
- بیوی ہو تو ایسی (1986ء ایوارڈ یافتہ)
- دھنک 1986ء
مزید فہرست مظہر میگزین۔ لہریآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ mazhar.dk (Error: unknown archive URL)
ڈرامے
[ترمیم]- آنگن ٹیڑھا
- یس سر نو سر (اسٹیج پلے)
اعزازات
[ترمیم]وہ واحد مزاحیہ اداکار تھے جہنوں نے 12 مرتبہ اپنی منفرد اداکاری پر نگار ایوارڈز حاصل کیے اور حکومت پاکستان نے ان کی اس خدمات پر 1996 میں حسین کارگردگی کے ایوارڈ سے نوازا۔[3] ان کے نگار ایوارڈ حاصل کرنے والی فلمیں درج ذیل ہيں :
- پیغام، (1964)
- کنیز، (1965)
- میں وہ نہیں(1967)
- صاعقہ (1968)
- نئی لیلیٰ نیا مجنوں، (1969)
- انجمن (1970)
- دل لگی، (1972)
- آج اور کل (1976)
- نیا انداز، (1979)
- صائمہ، (1985)
- بیوی ہو تو ایسی (1986)
تاثرات وتبصرے
[ترمیم]لہری برصغیر کی فلمی دنیا اپنی طرز کے منفرد اداکار تھے۔ ان کے بعد فلمی دنیا، ٹی وی اور سٹیج میں مزاح سے وابستہ ہونے والے تمام لوگ ان کی ہنرمندی اور بڑائی کے قائل ہیں اور ان میں سے بیشتر سمجھتے ہیں کہ لہری ایک ایسے اداکار تھے جنھوں نے نہ صرف فلمی دنیا میں اپنے لیے جگہ بنائی بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی مزاح کا ایک نیا راستہ دکھایا۔
خوبی
[ترمیم]لہری کی خاص بات ان کے ڈائیلاگز تھے۔ جس انداز سے وہ بولتے وہی ان کی پہچان بنا۔۔ ان کی بذلہ سنجی کا کمال دیکھیے کہ بیمار ہوں یاپریشان کبھی شکن نہ آئی ماتھے پر۔۔ لہری نے ہمیشہ ایسی کامیڈی کی جس پر شائقین ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوجائیں۔۔۔۔ لیکن ان کے جملوں پر کوئی ناراض نہیں ہوا۔۔۔ لہری کو بارہ نگار ایوارڈز اور فلم انڈسٹری کی جانب سے خصوصی ایوارڈز سے نوازا گیا۔۔
لہری برصغیر کی فلمی دنیا اپنی طرز کے منفرد اداکار تھے۔ ان کے مزاح کی خاص بات ان کے برجستہ جملے ہوتے تھے اور وہ کبھی مزاح کے لیے جسمانی حرکتوں سے کام نہیں لیتے تھے۔ ان کے اس انداز کے پیرو کاروں میں معین اختر مرحوم سرفہرست ہیں اور پاکستان کے حیات مزاح کاروں میں انور مقصود نے بھی انھی کے انداز کو کمال دیا۔
ہم عصروں کی نظر میں
[ترمیم]اداکارہ شبنم اپنے شوہر روبن گھوش کے ساتھ 2012 میں پاکستان کے دورے پر آئیں تو خاص طور پر لہری کی عیادت کے لیے گئیں۔ ایک تقریب میں شبنم نے لہری کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا ’ہمارے (شبنم اور روبن گھوش) پاکستان کے تمام ہی اداکاروں سے ایسے مراسم ہیں جیسے وہ ہمارے خاندان ہی کے رکن ہوں لیکن لہری ان لوگوں میں سے ہیں جن کا میں بے حد احترام کرتی ہوں، صرف اس لیے نہیں کہ وہ برِ صغیر کے ایک بڑے اداکار ہیں بلکہ اس لیے بھی کہ وہ ایک انتہائی اچھے انسان ہیں۔‘
نئے فنکاروں کی نظر میں
[ترمیم]اداکار شکیل صدیقی نے کہا کہ اداکار لہری ہمارے طنز و مزاح کے شعبے کے وہ درخشاں ستارے تھے جس کی روشنی میں مجھ سمیت دیگر فنکاروں نے اپنا فنی سفر شروع کیا، وہ ہمارے لیے درخشاں مثال تھے۔
اداکار کاشف خان نے کہا کہ میں تو انھی کے حوالے سے پہچانا جاتا ہوں، میں نے کامیڈی کا انداز لہری سے سیکھا اور انھی کی طرز پر میں ملک اور بیرون ملک پرفار م کرتاہوں، لہری پاکستان فلم انڈسٹری کے لیجینڈ کامیڈین تھے، خدا ان پر رحمتیں نچھاور کرے۔
بذلہ سنجی
[ترمیم]خود داری کے ساتھ ساتھ لہری کا فن ظرافت بھی ابھی زندہ ہے۔ کراچی میں آخری ایام میں میڈیا کے نمائندوں سے ملاقات کے دوران میں بھی جہاں انھوں نے اپنے اوپر گزرنے والی تکالیف کا ذکر کیا وہیں اپنے مخصوص فن کو وہ فراموش نہ کرسکے۔ ان کا کہنا تھا "میں ڈھائی کمرے کے فلیٹ میں مقیم ہوں اور کے ای ایس سی نے اسی فلیٹ کا بل 36500روپے بھیجا ہے۔ جب میرے بچوں نے مجھے بل دکھایا تو میں نے سوچا شاید کسی کا فون نمبر لکھا ہے لیکن وہ مجھ پر واجب الادا رقم تھی۔ یہ مجھ پر ڈینگی وائرس سے بڑا حملہ ہے۔ اس قدر بڑی رقم دیکھ کر میں پریشان ہوں کہ اب کس طرح گزارہ ہو گا"۔
آخری ایام
[ترمیم]ان کا آخری ایوارڈ نگار ایوارڈ تھا جو 1993ء میں ان کی فلمی خدمات کے اعتراف کے طور پر دیا گیا۔ لہری پر سب سے پہلے 1985ء میں بنکاک میں فلم کی شوٹنگ کے دوران میں فالج کا اٹیک ہوا، پھر قوت بینائی میں کمی آنے لگی، اس طرح وہ فلمی دنیا سے آہستہ آہستہ کنارہ کش ہوتے چلے گئے۔ طویل ترین بیماریوں نے لہری کو نہایت کمزور کر دیا ہے۔ وہ فالج کے مرض میں مبتلا ہونے کے ساتھ ساتھ ذیابیطیس کے بھی مریض ہیں۔ پہلے بھی کئی مرتبہ اسپتالوں میں انگنت دن گزار چکے ہیں۔ ذیابیطس کے مرض میں ہی ان کی ایک ٹانگ کاٹنا پڑی۔ ان کی زندگی کے آخری ایام میں اداکار معین اختر نے ان کی بڑی دیکھ بھال کی۔ انتقال سے پہلے عید الفطر کے دوسرے روز سے کراچی کے نجی اسپتال میں زیر علاج تھے جہاں انھیں پھیپھڑ وں میں پانی بھر جانے کے باعث لایا گیا تھا تاہم ان کی حالت زیادہ خراب ہونے پر انھیں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں وینٹی لیٹر پر منتقل کر دیا گیا تھا۔
13 ستمبر 2012 میں طویل علالت کے بعد ان کا انتقال ہوا۔[4] لہری نے پسماندگان میں پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں سوگوار چھوڑی ہیں۔
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ انور سِن رائے (جمعرات 13 ستمبر 2012ء)۔ "لہری: پاکستان میں مزاح کا انتقال"۔ بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
- ↑ وسیم اے صدیقی (27.10.2010 20:00)۔ "اداکار لہری: اب ستائش سے زیادہ امداد کے منتظر"۔ urduvoa.com
- ↑ "معروف مزاحیہ اداکار لہری ایک اکیڈمی تھے"۔ پنچ نیوز۔ ستمبر 20, 2012
- ↑ "اداکار لہری کے فلمی کیریئر پر ایک نظر"۔ جیو اردو۔ ستمبر 13, 2012