مندرجات کا رخ کریں

پریم چند

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
منشی پریم چند
مقامی ناممنشی پریم چند، मुंशी प्रेमचंद
پیدائشدھنپت رائے سری واستو
31 جولائی 1880(1880-07-31)
لمہی، شمال مغربی صوبہ، برطانوی ہند
وفات8 اکتوبر 1936(1936-10-80) (عمر  56 سال)
وارانسی، برطانوی ہند کے متحدہ صوبے، برطانوی ہند
پیشہناول نگار، افسانہ نگار، انشائیہ نگار
زباناردو-ہندی
قومیتبرطانوی ہند
نمایاں کامگودان، بازار حسن، میدانِ عمل، شطرنج کے کھلاڑی
شریک حیاتشِوا رانی دیوی
اولادسری پتھ رائے، امرت رائے، کملہ دیوی

دستخط

منشی پریم چند اردو کے مشہور ناول نگار اور افسانہ نگار ہیں۔ ان کا اصلی نام دھنپت رائے ہے، لیکن ادبی دنیا میں پریم چند کے نام سے مشہور ہیں۔ وہ 1880ء میں منشی عجائب لال کے وہاں ضلع وارانسی مرٹھوا کے گاؤں لمہی میں پیدا ہوئے۔ان کے دادا گاؤں کے پٹواری اور والد ایک ڈاک خانے میں کلرک تھے۔ پریم چند ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ نے تقریباً سات آٹھ برس فارسی پڑھنے کے بعد انگریزی تعلیم شروع کی۔ پندرہ سال کی عمر میں شادی ہو گئی۔ ایک سال بعد والد کا انتقال ہو گیا۔ اس وقت آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ پورے گھر بار کا بوجھ آپ پر ہی پڑ گیا۔ فکر معاش نے زیادہ پریشان کیا تو لڑکوں کو بطور استاد پڑھانے لگے اور میٹرک پاس کرنے کے بعد محکمہ تعلیم میں ملازم ہو گئے۔ اسی دوران میں بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔

منشی پریم چند کا ابتدائی سوانحی خاکہ

[ترمیم]

منشی پریم چند جن کا اصل نام دھنپت رائے شریواستو تھا، 31 جولائی 1880 میں بنارس کے قریب گاؤں لامہا میں پیدا ہوئے۔ پریم چند کے والدین نوجوانی میں ہی انتقال کر گئے- جب وہ چودہ برس کے تھے تو ان کی والدہ وفات پا گئیں اور ان کے والد نے دوسری شادی کر لی۔ پریم چند کی عمر پندرہ برس کی ہوئی تو ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ پریم چند اپنی سوتیلی ماں اور اس کے بہن بھائیوں کے لیے ذمہ دار چھوڑ دیا گیا۔

زندگی کے ابتدائی دور میں پریم چند نے بہت زیادہ غربت کا سامنا کیا۔ انھوں نے ایک وکیل کے بچے کو ایک ماہ کے لیے پانچ روپے معاوضہ پر پڑھایا۔ جب پریم چند کی عمر پندرہ سال کی تھی کہ ان کی شادی کر دی گئی لیکن ان کی شادی ناکام ہو گئی، بعد میں اس نے دوبارہ "شورانا دیوی" سے شادی کر لی۔ شلوارنا دیوی نے پریم چند کی جدوجہد میں ان کی مدد کی۔

پریم چند نے اپنے میٹرک امتحان کو 1898 میں بڑی کوشش کے ساتھ پاس کیا اور 1899 میں نے اٹھارہ روپے کی ماہانہ تنخواہ کے ساتھ اسکول میں پڑھانے کا کام کرنا شروع کر دیا۔ 1919 میں انھوں نے اپنے B.A. کو انگریزی، فارسی اور تاریخ کے مضامین کے ساتھ پاس کیا۔ بعد میں، پریم چند نے ڈپٹی ذیلی انسپکٹر آف اسکولوں کے طور پر کام کیا۔

پریم چند نے مالی جدوجہد کی زندگی بسر کی۔ ایک بار جب اس نے کچھ کپڑے خریدنے کے لیے دو اور نصف روپے کا قرض لیا۔ اسے واپس ادا کرنے کے لیے تین سال کے لیے جدوجہد کرنا پڑی۔

جب پوچھا گیا کہ وہ اپنے بارے میں کچھ بھی نہیں لکھتا ہے، تو اس نے جواب دیا: "میرے پاس کیا عظمت ہے کہ میں کسی کو بتانا چاہتا ہوں ؟ میں اس ملک میں لاکھوں لوگوں کی طرح رہتا ہوں۔ میں عام ہوں۔ میری زندگی بھی عام ہے۔ میں نے ایک غریب اسکول کے استاد کے طور پر کام کرتا ہوں۔ میں نے اپنی تمام زندگی میں اس بات کی آرزو کی کے ان دکھوں سے چھٹکارا حاصل کر لوں۔ لیکن میں اپنے آپ کو دکھ سے آزاد کرنے کے قابل نہیں رہا۔ اس زندگی کے بارے میں کیا خاص بات ہے جو کسی کو بتایا جائے ؟ "۔

زندگی کے آخری برسوں کے دوران میں وہ بہت ہی بیمار ہو گئے۔ صحت خراب ہونے کی بدولت ان کا انتقال 8 اکتوبر 1936 کو، 56 سال کی عمر میں ہوا۔

منشی پریم چند کی ابتدائی ادبی زندگی

[ترمیم]

آپ کا پہلا ناول ’’اسرارِ مابعد‘‘(اسرارِ معابد درست ہے) رسالہ آوازِ خلق میں 18؍ اکتوبر 1903ء کو شائع ہوا۔ 1907ء میں دوسرا ناول ’’کیش نا‘‘ کے نام لکھا جواب موجود نہیں۔ اس کے بعد 5 افسانوں کا مجموعہ ’’سوزِ وطن‘‘ کے نام سے 1908ء میں منظر عام پر آیا۔ جس میں آپ نے آزادی، حریت، غلامی اور بغاوت کے موضوعات کو چھیڑا۔ حکومتِ برطانیہ نے اس پر پابندی عائد کر دی۔ چنانچہ گورکھ پور کی حکومت نے اس کی تمام نقول حاصل کر کے جلا دیں اور آئندہ کے لیے سخت پابندی عائد کر دی۔ پریم چند نے ان افسانوں میں ’’نواب رائے‘‘ کے قلمی نام سے لکھا۔ بعد میں پریم چند کے نام سے لکھنا شروع کیا۔

منشی پریم چند کا افسانہ نگار ی میں مقام

[ترمیم]

اس بحث میں پڑے بغیر کہ اردو کا پہلا افسانہ نگار کون ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ اردو کا پہلا اہم اور بڑا افسانہ نگار پریم چند ہے۔ اردو ادب میں یہ ایک ایسا نام ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہندوستان کے دوسرے افسانہ نگاروں کی طرح آپ نے پیار، محبت، عشق، ہیرو، ہیروئن جیسے سطحی موضوعات کو اپنے اظہار کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ حقیقت پسندی کی طرف اپنے ذہن و قلم کا رُ�� جمایا۔ آپ کے قلم سے ہندوستان کی مٹی کی خوشبو آتی ہے۔ آپ کی افسانہ نگاری کو چار ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے۔

منشی پریم چند کی افسانہ نگاری کے ادوار

[ترمیم]

ڈاکٹر مسعود حسین خان نے اپنے مضمون ’’پریم چند کی افسانہ نگاری کے دور ‘‘ میں ان کی افسانہ نگاری کے چار ادوار بتائے ہیں۔

پہلا دور : 1903ء تا 1909ء تک ابتدائی کوشش

دوسرا دور : 1909ء تا1920ء تک تاریخی اور اصلاحی افسانے

تیسرا دور : 1920ء تا1932ء تک اصلاحی اور سیاسی افسانے

چوتھادور : 1932ء تا1936ء تک سیاسی اور فکری افسانے

پریم چند کی افسانہ نگاری کا آغاز بیسویں صدی سے ہو جاتا ہے۔ 19 ویں صدی کی کالونیاں 20ویں صدی میں کئی نئے ادیبوں سے آشنا ہو گئی تھیں۔ اردو شاعری میں اقبال نے ایک نئی جہت اور احتجاجی لہر کا آغاز کیا۔ 19ویں صدی کا معذرت خواہانہ لہجہ آہستہ آہستہ احتجاج میں بدل گیا۔ جنگِ عظیم اول 1914ء اور انقلاب روس 1917ء نے سامراجی قوتوں کے رعب میں رخنہ ڈال دیا تھا۔ پریم چند بھی اسی نیم سیاسی دور سے متاثر ہوئے۔ ’’سوزِ وطن‘‘ اسی دور کا اظہار ہے۔

ادب کے ذریعے انقلاب اور معاشرے میں تبدیلی لانے کا تصور پریم چند کی ابتدائی کہانیوں ہی سے سامنے آ گیا تھا۔ اس حوالے سے وہ مقصدی ادب کی ایسی تحریک کا تسلسل تھے جو 1857ء کے بعد سر سید اور ان کے رفقا کے ہاتھوں شروع ہوئی تھی۔ آپ کی ابتدائی کہانیوں میں حقیقت نگاری کا پہلو نمایاں رہاہے۔ پریم چند اس نکتہ سے واقف تھے کہ حقیقت نگاری کا محدود تصور فن کو تباہ کر دیتا ہے۔

بقول شمیم حنفی: ’’پریم چند کہانی کی اوپری سطح پر ہی حقیقت کا التباس قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے نیچے وہ آزادی چاہتے ہیں۔ ‘‘

بقول سید وقار عظیم: ’’وہ اپنی قوم اور ملک کی ہر اس چیز کو پرستانہ نظروں سے دیکھتے ہیں جو اسے دوسری قوموں سے ممتاز کرتی ہے۔ ‘‘

موضوعاتی اعتبار سے تقسیم

[ترمیم]

موضوعاتی اعتبار سے منشی پریم چند کے افسانوں کو تین بڑے حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

  1. - جب ان پرداستانوں کا اثر تھا۔
  1. -۔جب وہ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار تھے۔
  1. -۔جب انھوں نے انسانی نفسیات کا مطالعہ طبقاتی جبر کے حوالے سے کیا۔

پریم چند کے افسانوں میں رومانیت اور حقیقت نگاری کا امتزاج

[ترمیم]

زندگی کے خارجی معاملات اور معاشرے کی صحیح عکاسی حقیقت نگاری کہلاتی ہے جبکہ رومانیت میں زندگی کے باطنی پہلو اور وجدانی معاملات کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اس حوالے سے رومانیت میں تخیل کی آمیزش ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر محمد عالم خان کے مطابق ’’رومانوی ادیب زندگی کی عکاسی ایک مصور کی حیثیت سے کرتاہے جبکہ حقیقت پسند، زندگی کو فوٹو گرافرکی آنکھ سے دیکھتا ہے۔ ‘‘

پریم چند کے ہاں ہمیں دونوں رویے ملتے ہیں۔ ایک طرف سماج کی سچی اور کھری تصویریں جبکہ دوسری طرف تخیل کی رنگ آمیزی ملتی ہے۔ ڈاکٹر محمد عالم خان کی رائے کے مطابق ’’پریم چند کے ہاں رومانیت کا تصور ایک سماجی پہلو لیے ہوئے ہے اور وہ زندگی کی تلخ حقیقتوں سے انحراف نہیں کرتے‘‘۔

پریم چند بنیادی طور پر طبقاتی جبر کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ فرد کی آزادی کو بھی اہم سمجھتے ہیں۔ ان کی رومانیت پر وطن پرستی کا رنگ غالب ہے جس کا اظہار ان کی ابتدائی کہانیوں سے ہوتا ہے۔ پریم چند محبت کا تصور رومانوی اثرات کے ساتھ ساتھ تلخ حقائق کا اظہار کرنے سے کتراتے ہیں۔ کیونکہ ان کا تصور محبت سماجی روایت سے منسلک ہے۔ جس میں محبت کے کئی رنگ موجود ہیں۔ جس میں حب الوطنی، کچلے ہوئے طبقات سے ہمدردی، مادی حقائق کی اہمیت کو تسلیم کرنا وغیرہ۔

بقول ڈاکٹر محمد عالم خان: ’’پریم چند خیال کو مادے پر اہمیت دیتے ہیں اور یہی وہ بنیادی فرق ہے جو ان کو اپنے ہم عصر افسانہ نگاروں سے جدا کرتا ہے‘‘۔

ماضی پسندی، الم پسندی اور اضطراب و جستجو کو پریم چند کی رومانیت کے بنیادی عناصر قرار دیا جا سکتاہے۔ دوسرے افسانہ نگاروں کی طرح وہ آنکھ سے چیزوں کو نہیں دیکھتے بلکہ سماجی رویوں کے حوالے سے پہچان کراتے ہیں۔ ان کے یہاں تخیل کی بلندی ضروری ہے مگر ان کے پاؤں اپنے سماج اور زمین سے اوپر نہیں اٹھتے۔ آپ اپنا ایک نظریہ حیات رکھتے ہیں۔ وہ ماضی کے تسلسل میں حال کی پہچان کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے یہاں انقلاب اوررومان کا ایک ایسا امتزاج ملتا ہے جس کی بنیاد مثالیت، انسان دوستی اور معاشرتی اصلاح کے ساتھ ساتھ سماجی رویوں پر بھی ہے۔

پریم چند کے کردار

[ترمیم]

پریم چند کے کردار اکثر معاشرے کے ستائے ہوئے عام لوگ ہیں۔ انھوں نے ان ستائے ہوئے اور کچلے ہوئے مظلوم لوگوں خصوصاً دیہاتوں میں جاگیرداروں اور مہاجنوں کے ظلم کے مارے ہوئے لوگوں کو زبان دی۔ ان کے اندر آزادی کی تڑپ اور جدوجہد کا جذبہ پیدا کیا اور ایک نئی دنیا تعمیر کی اور طبقات سے آزاد معاشرے کا وجود ان کا بنیادی نظریہ تھا۔ وہ مثالیت اور حقیقت کے امتزاج سے اپنی افسانوی دنیا کی تخلیق کرتے ہیں۔

بقول ڈاکٹر محمد حسین: ’’انھوں نے ایسے کردار بھی ڈھالے ہیں جو فوق البشر طاقت کے ساتھ زندگی کی ساری راحتوں پر لات مارکر کسانوں اور مظلوموں کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں۔طعن و تشنیع سے بے پروا ہو کر سماجی خرابیوں سے لڑتے ہیں اور کسی قسم کی ذہنی اور جسمانی ضرب ان کے ماتھے پرشکن نہیں لاسکتی۔

پریم چند کااسلوب

[ترمیم]

آپ نے اپنے افسانوں میں سادہ زبان استعمال کی۔ آپ نے سنسکرت کے الفاظ کا کم استعمال کیا۔ آپ نے اکثر کرداروں کے مکالمے ان کی معاشی اور معاشرتی حیثیت کے مطابق لکھے۔ نہ صرف یہ بلکہ ان کے لیے مکالمے ان کے لہجے اور تلفظ میں تخلیق کیے۔ جو آپ کے زبردست مشاہدے کا غماز ہے۔ آپ نے ہندوستان کے لوگوں کو حقیقت پسندی سے روشناس کرایا۔ اُس وقت جب ہندوستان میں مذہبی داستانیں اور مافوق الفطرت موضوعات عروج پر تھے، آپ نے بین الاقوامی، ملکی، علاقائی، معاشرتی اور معاشی مسائل پر قلم اٹھایا۔ آپ نے ہندوستان کے دیہی موضوعات سے ساتھ ساتھ متوسط شہری کی زندگی کے مسائل پر بھی لکھا۔

پریم چند کے منتخب افسانوں پر تبصرہ=

[ترمیم]

کفن

[ترمیم]

کفن افسانہ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں[1]

یہ پریم چند ہی کا نہیں بلکہ اردو ادب کا بھی بہترین افسانہ ہے۔ یہ دو باپ بیٹوں کی کہانی ہے۔ جس میں جوان بہو زچگی کے عمل میں مر جاتی ہے۔ لاش کے لیے کفن نہیں ہوتا۔ دونوں باپ بیٹے کام چور ہوتے ہیں۔ کوئی ان کی مدد کے لیے تیار نہیں ہوتا مگر آخر کار انسانی ہمدردی کے تحت کفن کے لیے پیسے جمع ہو جاتے ہیں۔ دونوں باپ بیٹا کفن لینے نکلتے ہیں اور شراب خانے جا کر سارے پیسے خرچ کر دیتے ہیں۔

بقول ڈاکٹر محمد حسین ’’کفن میں پہلی بار پریم چند سماج کی تھوڑی بہت اصلاح کی جگہ اس کے مسلمات پر براہ راست حملہ آور ہوتے ہیں۔۔۔ آخر مردے کے کفن پر پیسہ ضائع کرنے کی بجائے مظلوم انسانوں کو جن کی زندگی جانوروں سے بدتر ہے۔ اس رقم سے دو لمحے بشاط اور خوشی میسر آ جائے تو کیا کفن دینے سے کہیں بہتر کارِ ثواب نہیں ہے‘‘۔

کفن حقیقت نگاری کے ساتھ ساتھ فنی جمالیات کی ایک عمدہ مثال ہے۔ یہ افسانہ ان کے اس نقطۂ نظر کا ترجمان ہے جو انھوں نے اپنے ایک خط میں بیان کیا۔ وہ لکھتے ہیں ’’محض واقعات کے اظہار کے لیے میں کہانیاں نہیں لکھتا۔ میں اس میں فلسفیانہ یا جذباتی حقیقت کا اظہار کرنا چاہتاہوں جب تک اس قسم کی بنیاد نہیں ملتی میرا قلم نہیں اٹھتا‘‘۔ 1930ء

انھوں نے کفن میں جس جرأت کے ساتھ انسانی فطرت کو بے نقاب کیا ہے وہ ان کے فن کا کمال بھی ہے اور نقطۂ نظر کااظہار بھی۔ آپ نے ’’کفن‘‘ کے بنیادی کرداروں ’’گھیسو‘‘ اور ’’مادھو‘‘ کے باطن میں گھس کر فطرت کو بے نقاب کیا۔

بقول ڈاکٹر گوپی چند نارنگ: ’’ پوری کہانی کی جان حالات کی ستم ظریقی ہے۔ جس نے انسان کو انسان نہیں رہنے دیا‘‘۔[حوالہ درکار]

طبقاتی نظام میں محکوم اور مجبور لوگوں کا استحصال ان کے اندر انسانی احساسات کو ختم کر دیتاہے اور ان کو حیوانی سطح پر رہنے پر مجبور کر دیتاہے۔ ’’کفن‘‘ کی یہ طنزیہ صورت حال اس درد ناک منظر سے شروع ہوتی ہے کہ جھونپڑے کے اندر جواں سال بہو دردِ زہ سے تڑپ رہی ہوتی ہے اور باہر گھیسو اور مادھوبجھے ہوئے الاؤ کے گرد بیٹھے خاموشی سے اس کے مرنے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ پریم چند کا کمال یہ ہے کہ وہ کم لفظوں میں بڑی حقیقت کو کہانی کا روپ دیتے ہیں۔

بنیادی طور پر کفن کی کہانی تین حصوں پر مشتمل ہے۔ جس میں پہلے حصے میں کرداروں کا تعارف، دوسرا حصہ بہو کی موت اور اثرات، تیسرا حصہ

غربت و افلا س کے میں پیدا ہونے والی بے حسی کا اظہار

[ترمیم]

پریم چند نے اردو زبان و ادب اور اس کے سرمایہ فکرکو ایک نئی جہت سے آشنا کیا۔ انھوں نے زندگی اور کائنات کو فکر و نظر کے مروجہ زادیوں سے ہٹ کر ایک نئی سطح سے دیکھا۔ ایک ایسی بلند سطح سے جہاں سے زندگی اور انسانیت کا سمندر کروٹیں لیتا اور ٹھاٹھیں مارتا نظر آتا تھا۔ وہ پہلے ادیب تھے جن کی نظر حیات انسانیت کے انبوہ میں ان مجبور اور بے بس انسانوں تک پہنچی جو قدرت کے دوسرے بے زبان مظاہر کی طرح صدیوں سے گونگے اور بے زبان تھے۔ پریم چند نے انھیں زبان دی۔

نوٹ: پریم چند کے دو افسانے ’’کفن اور سبحان بھگت‘‘ پریم چند خود یکجا نہ کر سکے جو بعد میں جعلی ایڈیشن کے ناموں سے شائع ہوئے۔

حج اکبر

[ترمیم]

بڑھیا ان کے یہاں تین سال سے نوکر تھی۔ اس نے ان کے اکلوتے بچے کی پرورش کی تھی۔ اپنا کام دل و جان سے کرتی تھی۔ اسے نکالنے کا کوئی حیلہ نہ تھا اور خواہ مخواہ کھچڑ نکالنا صابر جیسے حلیم شخص کے لیے غیر ممکن تھا۔ مگر شاکرہ اس معاملہ میں اپنے شوہر سے متفق نہ تھی۔ اسے شک تھا کہ دایا ہم کو لوٹے لیتی ہے۔ جب دایا بازار سے لوٹتی تو وہ دہلیز میں چھپی رہتی کہ دیکھوں اٹا چھپا کر تو نہیں رکھ دیتی۔ لکڑی تو نہیں چھپا دیتی۔ اس کی لائی ہوئی چیز کو گھنٹوں دیکھتی، پچھتاتی، بار بار پوچھتی اتنا ہی کیوں؟ کیا بھاؤ ہے؟ کیا اتنا مہنگا ہو گیا؟ دایہ کبھی تو ان بدگمانیوں کا جواب ملائمت سے دیتی۔ لیکن جب بیگم زیادہ تیز ہو جاتیں، تو ہ بھی کڑی پڑ جاتی تھی۔ قسمیں کھاتی، صفائی کی شہادتیں پیش کرتی۔ تردید اور حجت میں گھنٹوں لگ جاتے۔ قریب قریب روزانہ یہی کیفیت رہتی تھی اور روز یہ ڈراما دایہ کی خفیف سی اشک ریزی کے بعد ختم ہو جاتا تھا۔ دایہ کا اتنی سختیاں جھیل کر پڑے رہنا شاکرہ کے شکوک کی آب ریزی کرتا تھا۔ اسے کبھی یقین نہ آتا تھا کہ یہ بڑھیا محض بچے کی محبت سے پڑی ہوئی ہے۔ وہ دایہ کو ایسے لطیف جذبہ کا اہل نہیں سمجھتی تھی۔[1]

خط زمانی

[ترمیم]

1880ء : پیدائش، اصل نام دھنپت رائے، چچا نے نام رکھا

پریم چند، ابتدائی قلمی نام نواب رائے، دوسرا قلمی نام پریم چند۔

1885ء : مولوی صاحب سے اردو، فارسی پڑھنا شروع کی۔

1893ء : چھٹی جماعت میں داخل ہوئے۔

1897ء : میٹرک کیا۔

1899ء : پرائمریاسکول میں نائب معلم مقرر ہوئے۔

1900ء : لکھنا شروع کیا۔

1902ء : پہلا ناول اسرارِ مابعد۔

1904ء : دوسرا ناول کشانا، جونیئر انگلش ٹیچر کا امتحان پاس کیا،

ہیڈ ماسٹر بنے۔

1907ء : پہلی کہانی’’انمول رتن‘‘ لکھی۔

1908ء : سب ڈپٹی انسپکٹر مقرر ہوئے۔

1909ء : افسانوں کا دوسرا دور شروع ہوا، تاریخی اور اصلاحی

کہانیاں لکھیں۔

1920ء : تیسرا دور شروع ہوا، اصلاحی اور سیاسی کہانیاں۔

1921ء : ملازمت چھوڑدی۔

1922ء : رسالہ ’’مریادا‘‘ کی ادارت سنبھالی۔

1925ء : گنگاہتک مالا میں ملازمت کی۔

1928ء : ہندی رسالہ ’’مادھوری‘‘ کی ادارت کی۔

1930ء : اپنا پرچہ ’’ ھنس‘‘ نکالا۔

1932ء : چوتھا دور، سیاسی اور فکری۔

1936ء : اکتوبر میں انتقال۔[2]

افسانوں کے مجموعے

[ترمیم]

( 1 )سوزِوطن(1908ء)، (2)پریم پچیسی اول (1915ء)، (3)پریم پچیسی دوم ( 1918ء)، (4) پریم بتیسی (1920ء)، (5) خاکِ پروانہ(1920ء)، (6) خواب وخیال ( 1928ء)، (7) فردوسِ خیال(1929ء)، (8)پریم چالیسی(1930ء)، (9) آخر تحفہ(1934ء)، (10) زادِ راہ(1936ء )، [3]

ادبی زندگی

[ترمیم]

پریم چند کو ابتدا سے ہی کہانیاں پڑھنے اور سننے کا شوق تھا اور یہی شوق چھوٹے چھوٹے افسانے لکھنے کا باعث بنا۔ ان کی باقاعدہ ادبی زندگی کا آغاز 1901ء سے ہوا۔ جب آپ نے رسالہ (زمانہ) کانپور میں مضامین لکھنے شروع کیے۔ اول اول مختصر افسانے لکھے اور پھر ناول لیکن مختصرافسانہ نویسی کی طرح ناول نگاری میں بھی ان کے قلم نے چار چاند لگا دیے۔ انھوں نے ناول اور افسانے کے علاوہ چند ایک ڈرامے بھی یادگار چھوڑے ہیں۔
پریم چند مہاتما گاندھی کی تحریک سے متاثر ہوئے اور ملازمت سے استعفا دے دیاتھا۔ وہ دل و جان سے ملک کی آزادی کے یے لڑنا چاہتے تھے۔ لیکن اپنی مجبوریوں کی بنا پر کسی تحریک میں عملی حصہ نہ لے سکے۔ پریم چند کو اردو ہندی دونوں زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ 1936ء میں بنارس میں ان کا انتقال ہوا۔

پریم چند کے مکمل نگارشات کی طباعت

[ترمیم]

بھارت کے سرکاری ادارےقومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے پریم چند کی ہر طرح کی نگارشات کو 20 جلدوں میں شائع کیا ہے۔ اس کی تفصیل حسبِ ذیل ہے۔

جلد نمبر مشمولات تفصیل
1 تا 8 ناول جلد نمبر۔1: 1) اسرارِ معابد، 2) ہم خرما و ہم ثواب، 3) جلوہ ایثار، 4) بیوا جلدنمبر۔2، جلدنمبر۔3، گوشہ عافیت جلد نمبر۔4، جلدنمبر۔5، جلدنمبر۔6، جلدنمبر۔ 7، جلدنمبر۔ 8
9 تا 14 افسانے جلدنمبر۔9، جلدنمبر۔ 10، جلد نمبر۔11، جلدنمبر۔12، جلدنمبر۔13، جلدنمبر۔ 14,
15تا 16 ڈرامے جلدنمبر۔15، جلدنمبر۔ 16
17 خطوط
18تا 20 متفرقات جلدنمبر۔18، جلدنمبر۔ 19، جلدنمبر۔ 20
21 تا 22 تراجم جلدنمبر۔21، جلدنمبر۔22

افسانوی مجموعے

[ترمیم]

سوز وطن
پریم پچیسی
پریم بتیسی

خاک پروانہ

خواب وخیال

فردوس خیال

پریم چالیسی

آخری تحفہ
زاد راہ
واردات

دودھ کی قیمت

فہرستِ تخلیقات

[ترمیم]

ناول

[ترمیم]
نام ناشر تاریخ طوالت (صفحات) تفصیل
اسرارِ معابد (اردو)
دیوستھان رہسیہ (ہندی)
آوازِ خلق (سلسلہ وار) 1903ء (8 اکتوبر)-1905ء (فروری) English translation of the title: "The Mystery of God's Abode"
کشنا[4] میڈیکل ہال پریس، بنارس 1907ء 142 Now lost; satirises women's fondness for jewellery
ہم خرما و ہم ثواب[5] (اردو)پریما (ہندی)
انڈین پریس/ہندستان پبلشنگ ہائوس 1907ء Amrit Rai overcomes social opposition to marry the young widow Poorna, giving up his rich and beautiful fiance Prema. (Penned under the name "Babu Nawab Rai Banarsi")
روٹھی رانی زمانہ (سلسلہ وار) 1907ء (اپریل - اگست)
سوزِ وطن (مجموعہ) زمانہ کا ناشر 1907ء، 1909ء 1909ء میں برطانوی حکومت نے ممنوع کر دیا
وردان (ہندی)
جلوۂ ایثار (اردو)
گرنتھ بھنڈار اور دهنجو 1912ء
سیوا سدن (ہندی)
بازارِ حسن (اردو)
کلکتہ پستک ایجنسی (ہندی) 1919ء (ہندی); 1924ء (اردو) 280 An unhappy housewife first becomes a courtesan, and then manages an orphanage for the young daughters of the courtesans.
پریماشرم (ہندی)
گوشۂ عافیت (اردو)
1922ء
رنگ بھومی (ہندی)
چوگانِ ہستی (اردو)
دار الاشاعت (اردو، 1935ء) 1924ء
نرملا ادارۂ فروغِ اردو 1925ء 156 English title: The second wife۔ About the dowry system in بھارت (serialised in the magazine Chand between نومبر 1921 and نومبر 1926, before being published as a novel)
کایاکلپ (ہندی)
پردۂ مجاز (اردو)
لجپت رائے اینڈ سنس، لاہور (اردو) 1926ء (ہندی)، 1934ء (اردو) 440
پرتگیہ (ہندی)
بیوا (اردو)
1927ء Deals with widow remarriage
غبن (also transliterated as Ghaban) سرسوتی پریس، بنارس ؛ لجپت رائے اینڈ سنس، اردو بازار 1928ء 248
کرمہ بھومی (ہندی)
میدانِ عمل (اردو)
مکتبہ جامعہ، دہلی 1932ء
گودان سرسوتی پریس 1936ء 344 English title: The Gift of the Cow۔ Themed around the socio economic deprivation as well as the exploitation of the village poor.
منگل سوترا (نامکمل) ہندستان پبلشنگ ہائوس

مزید دیکھیے

[ترمیم]

پریم چند کی افسانہ نگاری

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. مدثر بھٹی (https://sirfurdu.com/archives/9479/)۔ "کفن افسانہ"۔ 21 اکتوبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ https://sirfurdu.com/archives/9479/ 
  2. پریم چند سنین کے آئینہ میں
  3. Mudassir Bhatti (https://sirfurdu.com/archives/9625)۔ "منشی پریم چند فن اور شخصیت"۔ منشی پریم چند فن اور شخصیت۔ https://sirfurdu.com/archives/9625۔ 26 اکتوبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ https://sirfurdu.com/archives/9625  روابط خارجية في |publisher= (معاونت)
  4. کلیات پریم چند، 1، قومی کونسل براے فروغِ اردو زبان، نئی دہلی، پہلا اڈیشن، جولائی ستمبر 2000، ص 9
  5. کلیات پریم چند، 1، قومی کونسل براے فروغِ اردو زبان، نئی دہلی، پہلا اڈیشن، جولائی ستمبر 2000، ص 10