وسیم باری
ذاتی معلومات | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
مکمل نام | وسیم باری | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پیدائش | کراچی، پاکستان | 23 مارچ 1949|||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بلے بازی | دائیں ہاتھ کا بلے باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
گیند بازی | دائیں ہاتھ کا تیز گیند باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
حیثیت | وکٹ کیپر | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بین الاقوامی کرکٹ | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
قومی ٹیم |
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پہلا ٹیسٹ (کیپ 54) | 27 جولائی 1967 بمقابلہ انگلینڈ | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
آخری ٹیسٹ | 2 جنوری 1984 بمقابلہ آسٹریلیا | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پہلا ایک روزہ (کیپ 10) | 11 فروری 1973 بمقابلہ نیوزی لینڈ | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
آخری ایک روزہ | 30 جنوری 1984 بمقابلہ آسٹریلیا | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
کیریئر اعداد و شمار | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ماخذ: ای ایس پی این کرک انفو، 4 فروری 2017 |
وسیم باری انگریزی: Wasim Bari(پیدائش:23 مارچ 1948ءکراچی، سندھ)ایک سابق پاکستانی کرکٹ کھلاڑی وکٹ کیپر ہیں[1]جنھوں نے 1967ء سے 1984ء تک 81 ٹیسٹ میچ اور 51 ایک روزہ بین الاقوامی میچ کھیلے۔ انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم کنٹونمنٹ پبلک اسکول کراچی سے حاصل کی وسیم باری ایک وکٹ کیپر اور دائیں ہاتھ کے بلے باز تھے۔ اپنے 17 سالہ کیریئر کے اختتام پر وہ پاکستانی ٹیسٹ تاریخ کے سب سے زیادہ میچ کھیلنے والے کھلاڑی تھے۔
23 وکٹ کیپرز میں سب سے نمایاں
[ترمیم]یوں تو پاکستان نے اب تک 23 وکٹ کیپر متعارف کروائے جس میں تسلیم عارف،راشد لطیف ،معین خان اور کامران اکمل شامل ہیں مگر جو شہرت اور مقبولیت وسیم باری کے حصے میں آئی اس کو تادیر یاد رکھا جاِئے گا ایک ایسی قوم کے لیے جو کرکٹ کی شیدائی ہے وسیم باری نے زبردست کیرئیر کے ساتھ اپنے ماہ وسال ملک کو دیے ہیں۔ وہ روڈنی مارش یا جیف ڈوجان یا ایلن ناٹ کے معیار سے زیادہ دور نہیں تھے وکٹوں کے پیچھے اس کا انداز ایک غوطہ خور سا تھا جس نے کئی شاندار کیچ پکڑ کر فتح گر کا کردار بخوبی نبھایا اس نے پہلی بار بتایا کہ وکٹ کیپر بھی ٹیم کا اہم حصہ کہلا سکتا ہے بحیثیت کپتان اور ٹیم کے واحد واقعی تیز گیند باز، عمران خان کو وسیم باری کی صلاحیتوں پر پورا بھروسا تھا اور انھوں نے اسے ایک دو مواقع پر قبل از وقت استعفیٰ دینے سے روک دیا۔ کسی ایسے شخص کے لیے جو رفتار کے خلاف پوری طرح سے جانچا نہیں گیا تھا، یہ ایک خراج تحسین تھا کہ عمران خان نے سوچا کہ وہ انگلینڈ کے ایلن ناٹ کی طرح اچھا ہے اور آج بھی وہ نئے وکٹ کیپرز کے لیے ایک استعارہ ہے۔
صلاحیتوں کا اعتراف
[ترمیم]ان کی صلاحیتوں کا اعتراف پہلی بار 1967ء میں انگلینڈ کی انڈر 25 ٹیم کے ارکان نے کیا تھا کہ وہ جنوبی ایشیا سے باہر آنے والے بہترین کیپر تھے۔ یہ انگلینڈ میں تھا جہاں اس نے اپنا ٹیسٹ میچ ڈیبیو کیا، کولن ملبرن ان کے پہلے آؤٹ ہونے والے کھلاڑی تھے۔ بلے کے ساتھ وہ اپنے کیریئر میں 15.88 فی اننگز کا انتظام کرتے رہے، جس میں 11ویں نمبر پر ناٹ آؤٹ 60 رنز کی اننگز بھی شامل تھی، جس میں انھوں نے وسیم راجا کے ساتھ آخری وکٹ کی شراکت میں 133 رنز بنانے میں مدد کی۔کمنٹیٹر اور انگلینڈ کے سابق کپتان ٹونی گریگ کے مطابق، زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ ایلن ناٹ اس دور میں کھیل کھیلنے والے بہترین وکٹ کیپر تھے لیکن ناٹ خود سمجھتے تھے کہ باری ان سے بہتر ہیں۔
فرسٹ کلاس کیرئیر
[ترمیم]وسیم باری کے خاندان کا کرکٹ سے کوئی خاص تعلق نہیں تھا انھوں نے کراچی میں آنکھ کھولی اور سیدھے ہاتھ سے بلے بازی اور ابتدا میں سیدھے ہاتھ کے عظیم بولر بنے بعد ازاں انھوں نے دستانے سنبھال کے وکٹوں کے پیچھے اپنے کیرئیر کا عظیم سفر شروع کیا انھوں نے کراچی ،پاکستان انٹر نیشنل ائیر لائنز اور سبدھ کی طرف سے کرکٹ کھیلی 177 ان کا بہترین سکور تھا جبکہ فرسٹ کلاس میں 684 کیچ اور 144 اسٹمپ ان کی مہارت کے بھرپور عکاس تھے۔
ٹیسٹ کرکٹ میں آمد
[ترمیم]وسیم باری کو ایک طویل عرصہ کرکٹ کیرئیر میں مصروف رہنے کا موقع ملا انھیں انگلستان کے خلاف 1967ء کی سیریز میں لارڈز کے میدان میں اتارا گیا پہلی۔اننگ میں 13 رنز کے ساتھ اس نے اپنی اننگ شروع کی اس نے کولن ملبرن کو آصف اقبال۔کی گیند پر کیچ کرکے پہلا شکار حاصل کیا کین برینگٹن ان کی دوسری وکٹ بنے اس بار بھی باولر آصف اقبال ہی تھے نوٹنگھم اور دی اوول کے ٹیسٹوں میں بھی وسیم باری شریک رہے مگر کوئی زیادہ متاثر کن کارکردگی پیش کرنے سے قاصر رہے۔ 2 سال کے وقفے کے بعد 1969ء میں انگلستان نے پاکستان کا دورہ کیا۔ لاہور' ڈھاکہ اور کراچی کے 3 ٹیسٹ میچ وسیم باری کے حصے میں آئے تاہم ان کی کارکردگی ملی جلی رہی۔ اسی سیزن کے آخر میں نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا۔ کراچی کے پہلے ٹیسٹ میں کل ملا کر دونوں اننگز میں وسیم باری نے 34 رنز بنائے جبکہ لاہور کے ٹیسٹ میں وہ 18 رنز تک محدود رہے۔ ڈھاکہ کے ٹیسٹ میں انھوں نے پہلی اننگ میں مارک برجیس کو پرویز سجاد کی گیند پر کیچ کیا تو دوسری طرف وکٹ کیپنگ بیٹسمین کین ورڈزورتھ کو بھی سلیم الطاف کی گیند پر کیچ کیا۔ دوسری اننگز میں انھوں نے گراہم ڈولنگ اور ہیڈلے ہاروتھ کو کیچ کرکے میچ میں 4 کیچز لیے۔ 2 سال کے بعد 1971ء میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے انگلستان کا دورہ کیا۔ لیڈز کا ٹیسٹ وسیم باری کے لیے ایک یادگار ٹیسٹ بن گیا اگرچہ انگلستان 25 رنز سے یہ ٹیسٹ جیت گیا لیکن وسیم باری کے لیے یہ ٹیسٹ بہت یادگار تھا۔ انھوں نے جیفری بائیکاٹ 112' برائن لک ہرسٹ 0' جان ایڈرچ 2' ڈینس ایمس 23' رابن ہوپس 6 کی وکٹیں پہلی اننگ میں جبکہ برائن لک ہرسٹ 0' بیزل ڈی الیوریا 72' رے النگ ورتھ 45 کا بھی شکار کیا۔ ساتھ ساتھ انھوں نے 7 ویں نمبر پر بیٹنگ کرتے ہوئے 238 منٹ میں 63 رنز سکور کیے۔ اس طرح یہ ٹیسٹ ان کی زندگی کا ایک یادگار ٹیسٹ بن گیا۔ اگلے سال پاکستان کی کرکٹ ٹیم تین ٹیسٹ میچوں میں شرکت کے لیے آسٹریلیا گئی۔ وسیم باری نے اس بار بھی ایڈیلیڈ کے مقام پر 72 رنز کی شاندار باری کھیلی۔ میلبورن میں اگرچہ وہ صرف 7 رنز کی بنا سکے مگر انھوں نے 5 کیچ اور ایک سٹمپ کیے۔ سڈنی کے تیسرے ٹیسٹ میں بھی وکٹوں کے پیچھے انھوں نے 4 کیچ پکڑے۔ اس دورے کے فوراً بعد پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے نیوزی لینڈ کا دورہ کیا اس دورے میں اس کی کارکردگی ملی جلی رہی اور کوئی بہت نمایاں پرفارمنس نہ دکھا سکے۔ اسی سیزن میں انگلستان کی کرکٹ ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا۔ لاہور کے پہلے ٹیسٹ میں انھوں نے 4 کیچ اور ایک سٹمپ کیا لیکن یہ حیدرآباد کا دوسرا ٹیسٹ تھا جہاں وسیم باری ایک بار پھر متحرک دکھائی دیے۔ انھوں نے پہلی اننگ میں 48 قیمتی رنز بنائے اور وکٹوں کے پیچھے 3 کیچ اور 2 سٹمپ کرنے میں کامیاب رہے۔ کراچی کے دوسرے ٹیسٹ میں بھی 17 ناٹ آئوٹ اور 41 رنز کی دو باریاں ان کے کھاتے میں درج ہیں۔ 1974ء میں پاکستان نے انگلستان کا جوابی دورہ کیا۔ لیڈز اور لارڈز کے دونوں ٹیسٹوں میں تین' تین اور اوول کے آخری ٹیسٹ میں انھوں نے 2 کھلاڑیوں کو وکٹوں کے پیچھے کیچ آئوٹ کیا۔ 1975ء میں ویسٹ انڈیز نے پاکستان کا دورہ کیا۔ لاہور ٹیسٹ میں انھوں نے 2 کھلاڑیوں کو کیچ کیا لیکن کراچی کے ٹیسٹ میں انھوں نے دوسری اننگز میں 58 رنز کی شاندار اننگ کھیلی۔ اس دوران انھوں نے انتخاب عالم کے ساتھ اور بعد ازاں وسیم راجا کے ساتھ مل کر دو عمدہ شراکتوں میں ساجھے داری نبھائی۔ 1976ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف 2 ٹیسٹوں میں انھوں نے مجموعی طور پر 7 شکار کیے۔ 1976ء میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے آسٹریلیا کے دورہ کیا۔ ایڈیلیڈ اور میلبورن کے ٹیسٹوں میں انھوں نے 3 شکار کیے لیکن یہ سڈنی کا ٹیسٹ تھا جہاں انھوں نے 7کھلاڑیوں کو وکٹوں کے پیچھے دبوچا۔ ان کی شاندار کارکردگی کا ہی مظہر تھا کہ پاکستان یہ ٹیسٹ 8 وکٹوں سے جیت گیا۔ وسیم باری نے ایلن ٹرنل 0' ڈگ والٹر 2' گیری کوزیئر 50 کو پہلی اننگ جبکہ رک میکاسکر 5' گریگ چیپل 5' ڈگ والٹر 38 اور گیری کوزیئر کو 4 رنز تک ہی محدود کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ اس میچ میں عمران خان نے مجموعی طور پر 12 کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا تھا۔ انھوں نے 102/6 اور 63/6 کی عمدہ کارکردگی کا سبب پاکستان کی فتح کی راہ ہموار کی۔ اسی سیزن میں پاکستان نے 5 ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلنے کے لیے ویسٹ انڈیز کا رُخ کیا۔ وسیم باری نے برج ٹائون کے پہلے ٹیسٹ میں جہاں 4 کھلاڑیوں کو اپنا شکار بنایا وہاں انھوں نے دوسری اننگز میں 60 ناقابل شکست رنز بنا کر آل رائونڈ کارکردگی پیش کی۔ پورٹ آف سپین کے دوسرے ٹیسٹ میں 21 رنز بنانے کے علاوہ انھوں نے 3 کھلاڑیوں کو بھی اپنا نشانہ بنایا۔ جارج ٹائون اور پورٹ آف سپین کے تیسرے اور چوتھے ٹیسٹ میں بھی ان کی کارکردگی ملی جلی رہی لیکن کنگسٹن میں منعقدہ سیریز کے آخری ٹیسٹ میں ان کا دائو چل گیا اگرچہ ویسٹ انڈیز نے یہ ٹیسٹ 140 رنز سے جیت لیا تھا لیکن وسیم باری نے گورڈن گرینج' ویوین رچرڈ' ایلون کالی چرن' کولس کنگ' ڈیرک مرے' ڈیوڈ ہالفورلڈ اور اینڈی رابرٹس کو کامیابی سے پویلین بھجوایا تھا۔ 1978ء میں انگلستان نے پاکستان کا دورہ کیا۔ تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں حیدرآباد کے ٹیسٹ میں وسیم باری نے تین کھلاڑیوں کی اننگ کا خاتمہ کیا۔ اسی سال پاکستان کی ٹیم انگلستان کے دورے پر گئی تاہم وسیم باری کے حصہ میں کوئی خاص کامیابی نہ آ سکی۔ اسی سیزن میں بھارت نے پاکستان کا دورہ کیا۔ سیہ سیریز وسیم باری کی چند کامیاب سیریز میں شمار کی جاتی ہے۔ لاہور کے دوسرے ٹیسٹ میں انھوں نے 85 رنز کی عمدہ باری کھیلی۔ اگر وہ بشن سنگھ بیدی کی گیند پر وکٹ کیپر سید کرمانی کے ہاتھوں کیچ نہ ہوتے تو شاید وہ اپنے کیریئر کی پہلی سنچری سکور کرنے میں کامیاب ہوجاتے۔ وکٹوں کے پیچھے انھوں نے تین کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا۔ کراچی کے تیسرے ٹیسٹ میں بھارت کے چار کھلاڑی وکٹوں کے پیچھے اس کی چابکدستی کا شکار ہوئے۔ پاکستان اس ٹیسٹ میں فتح یاب رہا تھا۔ اگلے سال 1979ء میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے نیوزی لینڈ کا دورہ کیا۔ کرائسٹ چرچ کا پہلا ٹیسٹ ایک بار پھر وسیم باری کی عمدہ کارکردگی کا مظہر ٹھہرا اور پاکستان کی 128 رنز کی فتح میں نمایاں رول کا حامل تھا۔ وسیم باری نے جان رائٹ' بروس ایڈگر' جان پارکر' رچرڈ ہیڈلے اور پہلی اننگ میں گھر بھجوایا تو دوسری باری میں وارن لیز' برینڈن بریسولز اس کے ہتھے چڑھے لیکن اس میچ کے اصل مرد میدان مشتاق محمد نے جنھوں نے میچ میں 9 کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا[2]
1980ء کے بعد کی کرکٹ
[ترمیم]اسی سیزن میں پاکستان نے آسٹریلیا کے دورہ کیا۔ میلبورن اور پرتھ کے دو ٹیسٹوں میں وسیم باری نے 6 کھلاڑیوں کو وکٹوں کے پیچھے آئوٹ کیا۔ اس کے بعد 1979-80ء میں پاکستان نے بھارت کا دورہ کیا اور 6 ٹیسٹ میچوں پر مشتمل مکمل سیریز کھیلی۔ وسیم باری نے بنگلور کے پہلے ٹیسٹ میں وسیم باری نے 129 منٹ میں 49 ناٹ آئوٹ بنائے جبکہ دہلی کے دوسرے ٹیسٹ میں انھوں نے 3 شکار کیے لیکن یہ ممبئی کا تیسرا ٹیسٹ تھا جب وسیم باری نے 6 کیچ اور ایک سٹمپ کرکے میچ میں 7 وکٹیں حاصل کیں اگرچہ بھارت یہ ٹیسٹ جیت گیا لیکن وسیم باری نے اپنی سی کوشش ضرور کی تھی۔ کانپور میں 3 اور کلکتہ کے آخری ٹیسٹ میں ان کے ہاتھ صرف ایک کھلاڑی آیا۔ 1980ء میں ہی ویسٹ انڈیز نے پاکستان کا دورہ کیا جس میں کراچی اور ملتان کے دو ٹیسٹوں میں وسیم باری کی کارکرگی متاثر نہ کرسکی۔ اگلے سیزن 1981ء میں پاکستان آسٹریلیا کے دورے پر تھا۔ پرتھ کے پہلے ٹیسٹ میں وسیم باری نے 5 کھلاڑیوں کو وکٹ کے پیچھے کیچ کیا جبکہ ایک کھلاڑی کریز سے باہر جانے کی پاداش میں سٹمپ آئوٹ ہوا۔ میلبورن میں اس کے ہتھے 3 کھلاڑی چڑھے۔ اگلے سال 1982ء میں پاکستان نے انگلستان کا دورہ کیا۔ برمنگھم اور لارڈز کے اولین دو ٹیسٹوں میں انھوں نے تین' تین شکار کیے جبکہ لیڈز کے تیسرے ٹیسٹ میں ان کے حصے میں صرف کو کیچز ہی آ سکے۔ اسی سیزن میں آسٹریلیا نے پاکستان کا دورہ کیا۔ کراچی کے پہلے ٹیسٹ میں وسیم باری بہت متحرک نظر آئے۔ انھوں نے میچ میں مجموعی طور پر 6شکار کیے جس میں 5 کیچ اور ایک سٹمپ شامل تھا۔ فیصل آباد کے دوسرے ٹیسٹ میں 2 کیچز اور ایک سٹمپ جبکہ لاہور کے آخری ٹیسٹ میں 2 کھلاڑی سٹمپ کی صورت میں ان کی وکٹ بن گئے۔ 1982-83ء میں بھارت نے پاکستان کا دورہ کیا۔ یہ سیریز وکٹوں کے پیچھے وسیم باری کی عمدہ کارکردگی کا مظہر تھی۔ انھوں نے لاہور ٹیسٹ میں 4' کراچی میں 2' فیصل آباد میں 2' حیدرآباد سندھ میں 3 اور لاہور ایک اور کراچی میں ایک سٹمپ سمیت 5 کھلاڑی اپنے چنگل میں پھنسائے۔ اسی سیزن میں ہی بھارت کا دورہ کیا اور 3 ٹیسٹ کھیلے۔ وسیم باری کا جادو ایک بار پھر سر چڑھ کر بولا اور انھوں نے بنگلور میں 3' جالندھر میں 4 اور ناگپور میں ایک سٹمپ سمیت 5کھلاڑیوں کو ٹھکانے لگایا۔
1984ء میں آخری سیریز
[ترمیم]1984ء میں آسٹریلیا کا دورہ وسیم باری کی آخری سیریز تھی جہاں اس نے پرتھ اور برسبین میں دو' دو لیکن ایڈیلیڈ میں 5 کیچ پکڑے۔ میلبورن اور سڈنی میں بھی تین' تین وکٹوں کے ساتھ اس نے ٹیم کی مدد کی۔ مجموعی طور پر اس دورے میں انھوں نے 15 وکٹیں لے کر اپنے ٹیسٹ کیریئر کا کامیاب اختتام کیا۔
ون ڈے کیریئر
[ترمیم]وسیم باری نے 1973ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف کرائسٹ چرچ کے مقام پر اپنے ایک روزہ کیریئر کا آغاز کیا تھا جس میں انھوں نے 21 رنز بنانے کے علاوہ 3 کھلاڑیوں کو کیچ کیا تھا۔ 1974ء میں پاکستان نے انگلستان کا دورہ کیا تو وسیم باری ٹیم کے ہمراہ تھے۔ اس سیریز کے 2 ون ڈے میچوں میں ناٹنگھم اور برمنگھم میں وسیم باری نے 2 کھلاڑیوں کو کیچ کیا تاہم بیٹنگ میں ان کی باری نہ آ سکی۔ 1975ء کے اولین عالمی کپ مقابلوں میں برمنگھم میں انھوں نے ویسٹ انڈیز کے 3 کھلاڑیوں کو اپنا نشانہ بنایا۔ 1983ء کے عالمی کپ مقابلوں میں انھوں نے نیوزی لینڈ کے خلاف نیوزی لینڈ کے خلاف برمنگھم میں 34 قیمتی رنز بنائے اور 3 کیچ اور ایک سٹمپ کرکے آل رائونڈ کارکردگی دکھائی۔ یہ 34 رنز اس کے ون ڈے کیریئر کی سب سے بڑی انفرادی اننگ تھی۔
ریٹائرمنٹ کے بعد
[ترمیم]وسیم باری کی کرکٹ میں بے مثال خدمات کے باعث ریٹائرمنٹ کے بعد انھیں کرکٹ بورڈ میں چیف آپریٹنگ آفیسر سمیت بہت سی ذمہ داریاں دی گئیں اور انھوں نے اپنے کرکٹ بورڈ میں بہت سے عہدوں پر اپنے فرائض ادا کیے۔
کیچ کا عالمی ریکارڈ برابر
[ترمیم]1971ء میں لیڈز میں، انھوں نے ایک ٹیسٹ میچ میں 8 کیچ پکڑنے کا اس وقت کا عالمی ریکارڈ برابر کیا۔ وہ 1976/77ء میں آسٹریلیا کے خلاف ایک ٹیسٹ میں 4 بلے بازوں کو اسٹمپ کر کے دوبارہ ریکارڈ بک میں شامل ہو گئے۔ 1979ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف اس نے پہلے 8 میں سے 7 بلے بازوں کو کیچ کیا اور ایک ٹیسٹ اننگز میں سب سے زیادہ آؤٹ کرنے کا عالمی ریکارڈ بنایا۔ انھوں نے اپنے کیریئر کا اختتام 228 ٹیسٹ شکاروں کے ساتھ کیا، جو اس وقت کسی پاکستانی کی جانب سے سب سے زیادہ اور کسی جنوب ایشیائی کیپر کی جانب سے ہے۔ جنوبی ایشیائیوں میں صرف ایم ایس دھونی کے پاس ٹیسٹ کرکٹ میں زیادہ کیچ اور اسٹمپنگ ہیں[3]
اعداد و شمار
[ترمیم]وسیم باری نے 81 ٹیسٹ میچوں کی 112 اننگز میں 26 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر 1366 رنز بنائے جس میں 85 ان کا سب سے زیادہ سکور تھا۔ 15.88 کی اوسط سے بنائے گئے ان رنزوں می�� 6 نصف سنچریاں بھی شامل تھیں جبکہ 51 ایک روزہ میچوں کی 26 اننگز میں 13 بار ناٹ آوٹ رہ کر 221 رنز بنائے جس میں 34 اس کا کسی ایک اننگ کا سب سے زیافہ سکور تھا جس پر ان کی بیٹنگ اوسط 17.00 رہی۔اسی طرح 286 فرسٹ کلاس میچوں کی 357 اننگز میں 92 بار ناٹ آئوٹ رہ کر انھوں نے 5751 رنز بنائے۔ 177 ان کا بہترین سکور تھا۔ 21.70 کی اوسط سے بنائے گئے ان رنزوں میں 2 سنچریاں بھی شامل تھیں۔ انھوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں 201 کیچز اور 27 اسٹمپ کیے ون ڈے میچز میں ان کے شکار کی تعداد 62 رہی جس میں 52 کیچ اور 10 اسٹمپ شامل تھے اسی طرح فرسٹ کلاس کرکٹ میں ان کے شکاروں کا ریکارز 828 تھا جس میں 684 کیچ اور 144 اسٹمپ شامل تھے وسیم باری نے 1979ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف آکلینڈ کے مقام پر وکٹوں کے پیچھے 7 کیچ لیے جو کسی بھی ایک اننگ میں سب سے زیادہ کیچ لینے کا وکٹ کیپر ریکارڈ ہے۔ وسیم باری نے اس دوران جان رائٹ' بروس ایڈگر' جیف ہاروتھ' جان ریڈ' جرمی کونی' وارن لیز' لانس کینز کے کیچز کو اپنے دستانوں میں محفوظ کیا۔ ساتھ ہی انھوں نے پہلی اننگ میں 25 رنز بھی بنائے۔ حیرت انگیز طور پر دوسری اننگز میں نیوزی لینڈ کے 8 کھلاڑی آئوٹ ہوئے مگر اس بار وسیم باری کو کوئی وکٹ نہ مل سکی۔ وسیم باری کے ساتھ کسی ایک اننگ میں سب سے زیادہ 7 شکار کرنے والے مزید وکٹ کیپروں میں انگلستان کے باب ٹیلر' نیوزی لینڈ کے آئن سمتھ اور ویسٹ انڈیز کے ریڈلے جیکب شامل ہیں۔ یہ ریکارڈ کسی ایک میچ میں بھی زیادہ سے زیادہ شکاروں کے حوالے سے ابھی تک قائم ہے۔ اس کے علاوہ وسیم باری نے آسٹریلیا کے خلاف 1977ء میں میلبورن کے مقام پر 5 کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا' ان میں 4 کھلاڑی سٹمپ تھے۔ یہ بھی کسی ایک میچ میں سب سے زیادہ سٹمپ کرنے کا پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ ریکارڈ ہے جبکہ بھارت کے کرن مورے نے ویسٹ انڈیز کے خلاف 1988ء میں چنائی کے مقام پر 7 وکٹیں لی تھیں جن میں 6 سٹمپ تھے۔ وسیم باری نے اس دوران پہلی اننگ میں گریگ چیپل' ڈگ والٹرز' گیری گلمور کو سٹمپ کیا جبکہ دوسری اننگ میں رک میکاسکر اور روڈنی مارش کی وکٹیں حاصل کیں اس طرح انھوں نے پورے میچ میں 5 شکار کیے جو پاکستان کی طرف سے کسی ایک میچ میں سب سے زیادہ شکار کرنے کا وکٹ کیپنگ ریکارڈ ہے[4]
مزید دیکھیے
[ترمیم]- کرکٹ
- ٹیسٹ کرکٹ
- پاکستان قومی کرکٹ ٹیم
- پاکستان کے ٹیسٹ کرکٹ کھلاڑی
- پاکستان کے ایک روزہ بین الاقوامی کرکٹ کھلاڑیوں کی فہرست
حوالہ جات
[ترمیم]
پیش نظر صفحہ سوانح پاکستانی کرکٹ سے متعلق سے متعلق موضوع پر ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں مزید اضافہ کرکے ویکیپیڈیا کی مدد کرسکتے ہیں۔ |
- EngvarB from September 2013
- Use dmy dates from September 2013
- 1948ء کی پیدائشیں
- بقید حیات شخصیات
- پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز اے کے کرکٹ کھلاڑی
- پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے کرکٹ کھلاڑی
- پاکستان کے ایک روزہ کرکٹ کھلاڑی
- پاکستان کے کرکٹ کھلاڑی
- پاکستان کے ٹیسٹ کرکٹ کھلاڑی
- پاکستانی کرکٹ کے کپتان
- پاکستانی وکٹ کیپر
- پاکستانی ٹیسٹ کرکٹ کپتان
- جنوبی زون (پاکستان) کے کرکٹ کھلاڑی
- سندھ کے کرکٹ کھلاڑی
- سینٹ پیٹرکس کالج کراچی کے فضلا
- سینٹ پیٹرکس ہائی اسکول، کراچی کے فضلا
- کراچی بلیوز کے کرکٹ کھلاڑی
- کراچی سے کرکٹ کھلاڑی
- کراچی کی شخصیات
- کراچی کے کرکٹ کھلاڑی
- کراچی کے کھلاڑی
- کرکٹ عالمی کپ 1975 کے کھلاڑی
- کرکٹ عالمی کپ 1979 کے کھلاڑی
- کرکٹ عالمی کپ 1983 کے کھلاڑی
- وکٹ کیپر
- پاکستان کرکٹ ٹیم سلیکٹرز