خط نستعلیق
Nastaliq | |
---|---|
قِسم | ابجد |
زبانیں | فارسی زبان کشمیری زبان پنجابی زبان اردو ترک زبانیں |
مدّتِ وقت | چودھویں صدی عیسوی سے – تاحال |
نستعلیق (نسخ اور تعلیق کا مرکب) یا خط پارسی فن خطاطی کا ایک اہم، مشہور اور خوب صورت ترین خط ہے جس میں عموماً فارسی-عربی حروف تہجی استعمال کرنے والی زبانیں لکھی جاتی ہیں۔ عصر حاضر میں اس خط کا سب سے زیادہ استعمال اُردو زبان میں ہوتا ہے۔ یہ ایران میں چودھویں اور پندرھویں صدی عیسوی میں پروان چڑھا۔[1] بعض اوقات اس خط کو عرب خطاط بھی استعمال کرتے ہیں اور فارسی زبان میں عموماً سرخیوں کو لکھنے کے لیے اسے استعمال کیا جاتا ہے، جبکہ اردو زبان کی اکثر و بیشتر تحریریں، اخبارات، کتابیں اور ڈیزائن اسی خط میں لکھے جاتے ہیں۔ جبکہ کشمیری زبان اور پشتو زبان بولنے والے بھی اس خط کو اپنی تحریر کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ماضی میں عثمانی ترک زبان اسی خط میں لکھی جاتی تھی اور عثمانی اس خط کو تعلیق کہتے تھے۔[2] (واضح رہے کہ یہاں فارسی کا مشہور خط تعلیق مراد نہیں ہے، جسے عثمانی "تعلیق قدیم" سے تعبیر کرتے تھے)۔ فارس میں ساسانی سلطنت کے زوال کے بعد اس خط کا استعمال شروع ہوا اور جلد ہی فارسی کی تحریری روایت میں یہ خط مرکزی اہمیت کا حامل بن گیا۔ اس خط کی مرکزی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایران کی زبانیں (مغربی فارسی، بلوچی، کردی، لوری وغیرہ)، افغانستان کی زبانیں (دری، پشتو، ترکمان، ازبک وغیرہ)، بھارت اور پاکستان کی زبانیں (اردو، کشمیری، سرائیکی، پشتو، بلوچی، کوہستانی وغیرہ) اور چینی صوبہ سنکیانگ کی ترکی الاصل اویغور زبان اس خط کو استعمال کرتی ہیں۔ اب شینا زبان کے لیے بھی تاریخ میں پہلی بار ولایتی نستعلیق سامنے آگیا ہے اور بلتی زبان بھی اسی میں لکھی جا سکتی ہے، جس کو غلام رسول ولایتی نے بنایا ہے۔ اس خط کو تعلیق کا نام دے کر عثمانی خطاطوں نے اپنے فن پاروں میں خوب استعمال کیا اور اسی خط نستعلیق سے خط دیوانی اور خط رقعہ جیسے خوبصورت خطوط ایجاد کیے۔
ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خط نستعلیق عربی رسم الخط میں کثیر الاستعمال خطوط میں شمار ہوتا ہے۔ اسے لکھنے کے لیے 5 سے 10 ملی میٹر کے ریش قلم پر مشتمل چھلے ہوئے نرسل سے تیار شدہ قلم اور سیاہی استعمال کی جاتی ہے۔
اس خوبصورت طرز خطاطی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے بانی ایران کے مشہور خطاط میرعلی تبریزی تھے۔
وجہ تسمیہ
[ترمیم]اسلام کی ایران آمد کے بعد، ایرانیوں نے فارسی-عربی رسم الخط اپنایا۔ اِس طرح عربی خوش نویسی ایران اور ساتھ ہی دوسرے اسلامی ممالک میں عروج پاگئی۔ عربی میں متعدد انداز خطاطی جیسے خط ثلث، خط رقعہ، خط دیوانی اور خط نسخ میں سے خط نسخ عام طور پر قرآن کی خطاطی میں بکثرت استعمال ہوتا تھا جبکہ قرآن کے صفحات پر اصل متن کے چہار جانب وضاحتی عبارت (تفسیر) لکھنے کا رواج تھا اور اس وضاحت کے انداز خطاطی کو قرآن کے متن سے الگ انداز میں لکھا جاتا تھا جس کو حاشیوں معلق ہونے کی وجہ سے عربی لفظ علق سے تعلیق کہتے تھے، خط تعلیق موجودہ دور میں یا تو کم و پیش معدوم ہو چکا ہے یا بہت ہی کم اختیار کیا جاتا ہے۔ میر علی تبریزی نے 14 ہویں صدی عیسوی میں ان دو رسم الخطوط نسخ اور تعلیق کی خصوصیات کو آپس میں یکجا کر کہ ایک نیا خط بنایا جسے نسخ-تعلیق (نسختعلیق ) کا نام دیا گیا جو بعد میں مختصر ہو کر نستعلیق بنا۔
ہنس و نستعیلق
[ترمیم]میرعلی تبریزی کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایک رات انھوں نے خواب میں ہنسوں کو اڑتے ہوئے دیکھا اور دورانِ پرواز میں ان کے لچکدار جسم اور ان کے پروں کی خوبصورت حرکت سے متاثر ہوکر بیدار ہونے پر عبارت کے الفاظ کو تعلیق کی خمداری اور نسخ کی ہندساتی خصوصیات آپس میں امتزاج کر کے نستعلیق خط کو ایجاد کیا۔[3] جس طرح ہنس کے پروں کی طوالت اور خوبصورتی دیکھنے والے اور ہنس کی محو پرواز حرکات پر مختلف ہوا کرتی ہیں اسی طرح نستعلیق میں بھی ایک ہی حرف کو متعدد سیاق و سباق کے لحاظ سے مختلف انداز دیا جاتا ہے۔
تاریخ
[ترمیم]نستعلیق رفتہ رفتہ فروغ پایا اور کئی نامور خوش نویسوں نے اِس کی خوبصورتی میں اپنا حصہ ڈالا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ میر عماد حسنی نے اپنے فن سے نستعلیق کو عمدگی اور شائستگی کی چوٹی تک پہنچایا۔ تاہم، آج کل نستعلیق کا استعمال مرزا رضا کلہور کے طریقے پر کیا جاتا ہے۔ کلہور نے نستعلیق خطاطی کی اِصلاح کی تاکہ یہ چھپائی مشینوں میں آسانی سے استعمال ہو سکے۔ انھوں نے نستعلیق خطاطی کو سکھانے کے طریقے اور اِس کے قوانین بھی مرتب کیے۔
مغلیہ سلطنت نے برّصغیر پاک و ہند پر اپنی حکومت کے دوران میں فارسی کو عدالتی زبان کے طور پر استعمال کیا۔ اِس دوران میں نستعلیق جنوبی ایشیائی ممالک جیسے پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں عام ہو گیا۔ وہی رسُوخ ابھی تک باقی ہے۔ پاکستان میں اُردو کی تقریباًً تمام تحاریر و تصانیف اِسی رسم الخط میں لکھی جاتی ہیں۔ اور دُنیا بھر میں نستعلیق رسم الخط کا سب سے زیادہ استعمال پاکستان میں کیا جاتا ہے۔ حیدرآباد، لکھنؤ اور بھارت کے دوسرے شہر جہاں اُردو بولنے والوں کی تعداد زیادہ ہے، وہاں نستعلیق استعمال کیا جاتا ہے۔
اندازہائے نستعلیق
[ترمیم]نستعلیق خطاطی (فانٹ) کے وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ متعدد انداز میں تجربات کیے گئے اور ان تمام انداز میں حروف کی پیمائشوں اور ان کی آپس میں نسبت کو اصل نستعلیق میں متعین شدہ اصولوں کے مطابق رکھا گیا۔ سترھویں صدی کے عہد میں نستعلیق خط میں ایک جدت دیکھنے میں آئی کہ اس کے خمدار خطوط کو مزید طویل اور خمدار کرنے پر ایک نیا انداز اختیار کیا گیا جس کو اس کی خوبصورتی کے باعث خطِ نستعلیقِ برجستہ کہا گیا۔
خطِ نستعلیقِ شکستہ
[ترمیم]خطِ نستعلیقِ شکستہ کو اردو میں خطِ شکستہ یا محض شکستہ بھی کہا جاتا ہے جبکہ اس کی مہارت اور اعلیٰ معیار کی وجہ سے اس کو خط برجستہ بھی کہا جاتا ہے۔ نستعلیق کے اس انداز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے سترھویں صدی میں استادانِ خطاطی، مرتضی قلی خان شاملو اور محمد شفیع ہروی نے ایجاد کیا تھا۔ اس خط نستعلیق میں انتہائی مہارت و قواعدی نسبتوں کے ساتھ الفاظ کو کچھ خمدار اور لچکدار طریقے سے طول دیا جاتا ہے؛ قرآنی آیات، حمد و نعت اور شاعری کے دوران میں خط نستعلیق شکستہ میں ایک اور جدت یہ پیدا کی گئی کے طوالت شدہ الفاظ کے حصوں پر اوپر کی جانب بھی عبارت درج کی جانے لگی۔ اس خط برجستہ یا شکستہ کی ایجاد کے کوئی ایک صدی بعد درویش عبدالمجید طالقانی نے اس میں مزید خوبصورت تجربات کیے اور اس کو مزید ترقی دے کر موجودہ حالت پر پہنچایا۔
فارسی نستعلیق
[ترمیم]فارسی نستعلیق گو ایک قدیم ترین انداز نستعلیق ہے لیکن اس کا یہ مفہوم نا لیا جانا چاہیے کہ فارسی ہمیشہ فارسی نستعلیق کے انداز میں ہی لکھی جاتی ہے؛ یہ نام محض ایک انداز کو الگ بیان کرنے کی خاطر اس مضمون میں اختیار کیا جا رہا ہے۔ اس نستعلیق میں عام طور پر حروف کے عمودی حصوں اور الفاظ میں زیریں نسبت بالائی لحاظ سے دائیں جانب جھکاؤ سا محسوس ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ حروف و الفاظ کے الف نما عمودی حصے ہند و پاک میں لکھی جانے والی نستعلیق سے کچھ طویل ہو سکتے ہیں۔ ک اور گ کے مرکز یا گوشے نسبتاً کھینچ کر لکھے جاتے ہیں۔ جب کہ ب نما حروف کے جسم کا مرتفع اپنے آغاز پر عام طور پر 30 درجے کا زاویہ رکھتا ہے اور خمدار و غیر محسوس انداز میں مرتفع کے جسم سے ملتا ہے۔ متعدد استادان خطاطی کے خط میں ان میں ایک یا کئی باتیں غیر موجود بھی ہو سکتی ہیں؛ یعنی یہ تمام علامات ناقابل تحریف و ترمیم نہیں ہیں۔
دہلوی (اردو) نستعلیق
[ترمیم]دہلوی نستعلیق کی اصطلاح یہاں محض انداز خطاطی میں فارسی نستعلیق سے تمیز کو آسان کرنے کی خاطر درج ہے جبکہ اصل میں تمام اقسام کے نستعلیق میں اردو لکھی جاتی رہی ہے؛ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ دہلوی نستعلیق سے یہاں مراد وہ انداز نستعلیق ہے جو ایران میں بکثرت پائے جانے والے انداز نستعلیق کی نسبت ہندوستان میں عام ہوا۔ اس نستعلیق میں فارسی نستعلیق انداز کے برخلاف حروف اور الفاظ کے عمودی (اور تمام تحریر) کو سیدھا رکھا جاتا ہے یعنی اس میں جھکاؤ نہیں دیا جاتا۔ جبکہ درمیان میں جڑ کر آنے والے الفاظ کے شوشے متوازی عرض پر ہوتے ہیں۔
لاہوری نستعلیق
[ترمیم]لاہوری نستعلیق کے انداز میں متعدد باتیں پاک و ہند کے عمومی نستعلیق کی مانند ہی ہوتی ہیں۔ ایک بات جو اس انداز میں بہت نمایاں ہوتی ہے وہ خمدار جسم رکھنے والے حروف (مثال کے طور پر ق، ی اور ل وغیرہ) کا فراغ ہے؛ یہ فراغ لاہوری نستعلیق میں بہت واضع اور دوسرے نستعلیق کی نسبت گہرا کر کہ بنایا جاتا ہے اور عام طور پر دیگر نستعلیق کی نسبت اس فراغ کا اختتام زیادہ بلندی تک لے جاکر کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس نستعلیق میں درمیان میں آنے والے الفاظ کے شوشے متوازی عرض کی بجائے دائیں سے بائیں جانب جھکاؤ والے بنائے جاتے ہیں۔ گ کے ابتدائی جوڑ کو فارسی نستعلیق کی نسبت گہرا بھی کیا جا سکتا ہے جبکہ الف کا طول بھی عام دہلوی نستعلیق سے نسبتاً بڑا رکھا جا سکتا ہے اور اس میں ایک قوسی رجحان بھی دیا جاتا ہے۔
قلم نستعلیق
[ترمیم]خطاطی کے لیے استعمال ہونے والے قلم عام طور پر اپنی نوکِ قلم پر چوڑے (مختلف جسامت کے ) اور چپٹے ہوتے ہیں، گو بعض اوقات اس کام کے لیے موقلم (brush pen) بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ سخت نوک والے قلم عموماً بانس کے پودوں سے حاصل کردہ لکڑی کو تراش کر تیار کیے جاتے تھے اور ان کی نوک کا زاویہ اور پھر خطاط کے ہاتھ کی حرکت نستعلیق خطاطی میں خوبصورت منقوشات (glyphs) پیدا کرنے والے دو اہم ترین عوامل میں شامل ہیں۔ تاریخی طور پر قلم کو خطاطی میں ایک انتہائی اہم مقام دیا جاتا تھا اور اس بانس یا لکڑی سے قلم کو تراشنے (قط بنانے) کے لیے باقاعدہ مشق و تربیت حاصل کرنا پڑتی تھی اور اس تراش کے عمل کے لیے اختیار کیے جانے والے دھار والے چاقوؤں کو کسی اور چیز کاٹنے کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا تھا۔
قواعدِ نستعلیق
[ترمیم]نستعلیق خطاطی میں الفاظ تیار کرنے والے منقوشات تحریر کرنے کے لیے متعین شدہ قواعد اور ان منقوشات کی آپس میں نسبتوں کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ان قواعد اور ان کی نسبتوں کی پیمائش کے لیے سب سے اہم کردار قلم کی نوک کی جسامت کا ہوتا ہے اور کسی بھی ایک لفظ کی شکل و صورت آزاد نہیں ہوتی بلکہ اپنے ارد گرد موجود دیگر حروف پر انحصار کرتی ہے۔ خط نسخ میں عام طور پر آپس میں جڑجانے والے عربی یا اردو حروف اپنی سیاقی حساسیت کی وجہ سے چار اقسام کے ربطات (ligatures) رکھتے ہیں 1- آزاد 2- لفظ کی ابتدا میں 3- لفظ کے درمیان میں اور 4- لفظ کے آخر میں آنے کی صورت والے ربطات؛ جبکہ خط نستعلیق میں یہ سیاقی حساسیت مزید بڑھ جاتی ہے اور اس میں بعض اوقات اپنے سیاق و سباق میں آنے والے حروف کی مناسبت سے مذکورہ بالا چار میں سے کسی ایک ہی مقامِ لفظ پر آنے کے باوجود ایک ہی حرف ایک سے زیادہ اشکال کا حامل ہو سکتا ہے؛ مثال کے طور پر نون (ن) کی شکل لفظ کی ابتدا (مذکورہ بالا عدد 2) میں آنے کے باوجود اپنے ساتھ (برابر میں) موجود لفظ کے سیاق کے لحاظ سے کئی اقسام کی ہو سکتی ہے یعنی اگر نون میم کے ساتھ آکر نم بنائے تو نون کی شکل الگ ہوگی نا بنائے تو الگ نی بنائے تو الگ نس بنائے تو الگ حالانکہ نون کا لفظی مقام ایک ہی ہے یعنی لفظ کی ابتدا لیکن اس کی اشکال نستعلیق میں الگ ہو کر الگ ربطات کی طالب ہوتی ہیں جبکہ نسخ میں یہ شکل ایک ربطہ (ligature) سے ادا کی جا سکتی ہے۔
نوک القلم اور نظام النقاط
[ترمیم]ابن مقلہ (886ء تا 940ء) کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے سب سے پہلے کوفی انداز تحریر سے ہٹ کر خمدار ثلث خطاطی کی ابتدا کی اور ابن مقلہ ہی نے خطاطی کے وہ بنیادی اصول وضع کیے جو بعد میں آنے والے نسخ، تعلیق، دیوانی اور نستعلیق سمیت تمام خط تحریر میں اختیار کیے گئے اور آج تک مستعمل ہیں۔ ابن مقلہ نے نوک القلم کو بنیاد بنا کر اس کی چوڑائی سے بننے والے نقاط کو حروف اور الفاظ کی پیمائش اور ان کے آپس میں تناسب کو قائم کرنے کے لیے استعمال کیا اور اسی وجہ سے اس نظام کو نظام النقاط کہا جاتا ہے۔ اس نظام میں نقاط (چوڑائی نوک القلم) کی تعداد سے حروف کے شوشوں اور ان سے بننے والے الفاظ کے ربطات کی جسامت متعین کی جاتی ہے۔ مختلف اقسام کے خطوط کے شوشوں میں آنے والی نقاط کی تعداد مختلف اور مخصوص ہوتی ہے؛ مثال کے طور پر سامنے درج شکل میں خط نسخ اور نستعلیق میں حرف ع کے نقاط کی پیمائش سے حرف کی شکل اس خط کے مطابق ڈھالی گئی ہے۔
الف ابجد اور نظام الدائرہ
[ترمیم]نظام النقاط کے ساتھ ہی ابن مقلہ نے ایک اور پیمائشی طریقۂ کار ابجد حرف الف کو بنیاد مقرر کر کہ اختیار کیا؛ اس طریقۂ کار میں الف ابجد ایک طوالت کو ایک دائرے کا قطر مان کر نظام الدائرہ تیار کیا جاتا ہے۔ چونکہ مختلف اقسام کے خطوط میں الف کی طوالت مختلف ہوا کرتی ہے اسی وجہ سے اس کو بنیاد بنا کر فرض کیے جانے والے دائروں کی جسامت بھی اسی نسبت سے مختلف آتی ہے اور پھر اس دائرہ نما فرضی جسامت سے حروف کی آپس میں جسامت مقرر کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر خط نسخ میں عام طور پر الف پانچ تا چھہ نقاط طویل آتا ہے اور خط نستعلیق میں یہ طوالت تین یا ساڑھے تین نقاط آتی ہے؛ پھر اس الف کی طوالت سے حاصل ہونے والے دائرے نسخ اور نستعلیق کے حروف کی گولائی کو مقرر کرتے ہیں۔ جیسا کہ سامنے شکل میں نسخ (ع) سے ظاہر ہوتا ہے۔ نظام الدائرہ کا اصول شکستہ نستعلیق اور نستعلیق سے زیادہ نسخ، ثلث اور دیوانی میں دیکھا جاتا ہے۔
آزاد قلمی اور نظام التشابہ
[ترمیم]خطاطی میں بکثرت الفاظ کو ان کے معنائی پہلو کے ساتھ ساتھ رعنائی پہلو بھی دیے جاتے ہیں اور اس رعنائی خطاطی کی خاطر استادان خطاطی اور ماہرین خطاطی مذکورہ بالا دو نظام؛ نظام النقاط اور نظام الدائرہ سے نسبتاً اپنے قلم کو آزاد کرتے ہوئے بھی تحریر کرتے ہیں اور ایسا عام طور پر خط نستعلیق میں بہت عام دیکھا جاتا ہے۔ ان دونوں نظاموں سے آزاد قلم کو پھر متوازن تحریر کے دائرۂ عمل میں قید رکھنے کی خاطر ایک اور نظام اختیار کیا جاتا ہے جس کو نظام التشابہ (نظام التشبیہ) کہا جاتا ہے اور اس کی مدد سے تحریر میں توازن اور ہم آہنگی قائم کی جاتی ہے؛ اس نظام میں ایک جیسے اوائل یا ایک جیسے اواخر رکھنے والے حروف کو یکساں انداز میں ایک دوسرے سے تشبیہ دے کر تحریر میں لایا جاتا ہے اور یوں نظام النقاط و الدائرہ سے (کلی یا جزوی طور) آزاد رہنے کے باوجود تحریر کا توازن باقی رہتا ہے۔
قط اور نستعلیق
[ترمیم]قط کا لفظ اصل میں عربی زبان سے اردو میں آیا ہے اور متعدد معنوں میں استعمال ہوتا ہے لیکن خطاطی میں اس سے مراد جن معنوں کی لی جاوے ہے وہ ہیں، تراش کے معنی، یعنی قلم کو تراشنا یا قلم کی تراشیدہ نوک۔ اپنے انھی معنوں کی وجہ سے خطاطی میں یہ لفظ عام طور پر مذکورہ بالا نظام النقاط کی اضافت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ چونکہ ایک نقطہ، اگر خطاط اپنے ہاتھ کی حرکت کو خمیدہ کر کے نقطے کو ایک جانب معقر اور دوسری جانب محدب نا بنائے تو، اپنے ایک کونے سے مخالف کونے تک کی چوڑائی میں ہر نقطہ، قلم کی تراش (یعنی نوک القلم کی چوڑائی) کے عین برابر ہوتا ہے؛ اب چونکہ نقاط سے پیمائش کی نسبت قلم کی نوک کی چوڑائی سے پیمائش یا اندازہ آسان ہوتا ہے اس لیے عام طور پر (خصوصاً نستعلیق میں) اسی تراشیدہ نوک یا قط سے الفاظ کی نسبت متعین کرنے کا رواج پیدا ہوا۔ یہ چوڑائی قلم کی یا قط، مکمل اعداد کے ساتھ ساتھ؛ آدھے، ڈیڑھ اور سوا، کی اکائیوں میں بھی استعمال کی جاتی ہے۔
استادانِ نستعلیق
[ترمیم]نستعلیقی طبعہ تخطیط
[ترمیم]نستعلیقی ٹائپو گرافی اُس وقت شروع ہوئی جب اِس خط کے لیے دھاتی طبعہ جات (types) بنانے کی کوشش کی گئی لیکن یہ کوشش ناکام ثابت ہوئی۔ فورٹ ویلیم کالج نے ایک نستعلیق طبعہ بنایا لیکن وہ اصل نستعلیق سے ذرا مختلف تھا، اِسی وجہ سے کسی نے اِس کا اِستعمال نہیں کیا ما سوائے اسی کالج کے دارالکتب کے۔ ریاستِ حیدرآباد دکن نے بھی ایک نستعلیق طبعہ نویس (typewriter) بنانے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش بھی بُری طرح ناکام ہوئی۔ اور نتیجہ یہ اخذ کیا گیا کہ: ‘‘کاروباری یا تجارتی مقاصد کے لیے نستعلیقی طبعہ کی تیاری نا ممکن ہے’’۔ دراصل، نستعلیق طبعہ تیار کرنے کے لیے ہزاروں ٹکڑوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ جدید نستعلیق طبعہ نگاری نوری نستعلیق کی ایجاد سے شروع ہوئی۔
کمپیوٹر، ویب اور نستعلیق
[ترمیم]خط نستعلیق گو کہ عربی رسم الخط کی طرح ہی ہے لیکن اس کے باوجود اس میں حروف کی اشکال، جڑنے اور ناجڑنے والے الفاظ اور ان کی لفظ میں آنے والی چار اقسام (آزاد، ابتدائی، درمیانی اور آخری) کے اعتبار سے تبدیل ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے سے جڑنے والے حرف کے سیاق و سباق کے اعتبار سے بھی تبدیل ہو جاتی ہیں اور اس وجہ سے اس کے لیے علم کمپیوٹر میں سیاقی حساس کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے۔ اپنے نفاست اپنے ربطات میں پوشیدہ رکھنے کی وجہ سے نستعلیق کو کلیدی تختے پر محض ابجد دبا کر ڈسپلے پر درست اور نفیس انداز میں لانے کے لیے کی ایک کثیر تعداد درکار ہوتی ہے؛ یہ تعداد نا صرف یہ کہ رومن حروف سے لکھی جانے والی زبانوں بلکہ عربی نسخ اور ثلث وغیرہ کی نسبت بھی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ایک ہی مقام پر سیاقی حساس ربطات کی ایک مثال ب کے حرف کو استعمال کرتے ہوئے سامنے شکل میں دیکھی جا سکتی ہے۔
پہلا اہم نستعلیق
[ترمیم]1982ء میں پاکستان کا تمغۂ امتیاز حاصل کرنے والے مرزا احمد جمیل کا تیار کردہ نستعلیق گو پہلا میکانیکی نستعلیق نہیں لیکن پہلا معیاری اور خوبصورت ترین میکانیکی نستعلیق ضرور کہا جا سکتا ہے جس کے تمام تر ربطات بھی خود مرزا جمیل نے تیار کرائے۔[4] اور اس فانٹ، نوری نستعلیق کے نام کا پہلا لفظ ان کے والد مرزا نور احمد کی نسبت پر ہے[5] گو کہ اس فانٹ کی دستیابی کے بعد پاکستان کے اخبارات نے پہلی بار میکانیکی نستعلیق سے استفادہ شروع کیا لیکن یہ یکطبعہ (monotype) نظام پر امور کا محتاج تھا۔
ہندوستان یا پاکستان؟
[ترمیم]اردو کی پاکستانی زبان کے طور پر دعویداری و گردان کی جاتی ہے لیکن اردو کو معیاری انداز میں کمپیوٹر پر لانے کا کام ہندوستان میں انجام پایا۔ پاکستان کے اخبارات کو اپنا کاروباری ہدف بناتے ہوئے ہندوستان کے ایک ادارے concept software pvt ltd نے 1994ء میں نوری نستعلیق کو استعمال کرتے ہوئے ان پیج نامی سافٹ ویئر تیار کیا۔[6] ان پیج میں استعمال ہونے والا انداز نستعلیق اپنی خطاطی خصوصیات میں لاہوری یا فارسی نستعلیق کی بجائے ہند و پاک کے عمومی (دہلوی نستعلیق) سے قریب ہے۔ بیس پچیس سال سے زیادہ کا عرصہ گذر جانے کے باوجود آج تک کوئی پاکستانی ادارہ ان پیج کے مقابلے کا نستعلیق پیش نا کرسکا اور اس قدر طویل عرصے کے بعد ایک بار پھر اگر کوئی واقعی اہم پیش رفت سامنے آئی تو وہ فیض نستعلیق فونٹ کی صورت میں ہندوستان ہی کی جانب سے آئی۔[7] ؛ فیض نستعلیق میں مذکورہ بالا انداز نستعلیق بنام لاہوری نستعلیق کو بنیاد بنایا گیا ہے اور اس میں لاہوری نستعلیق کے اصول و قواعد وہی رکھے گئے ہیں[8] جو استاد خطاطی فیض مجدد (1912ء تا 1986ء) نے مرتب کیے تھے۔ فیض نستعلیق بنانے والوں کے موقع کے مطابق فیض مجدد کی وفات کے بعد ہندوستان میں فیض صاحب کے ایک شاگرد اسلم کرتپوری کے شاگرد ڈاکٹر ریحان انصاری ایسے دستیاب ہوئے جن میں فیض صاحب کے کام کو پرانی کتب سے ہو بہو نقل کر کے ترسیمات بنانے کی صلاحیت موجود تھی[9]
نقل بازیاں اور ہمتیں
[ترمیم]دنیا کے مقبول آپریٹنگ سسٹم (ونڈوز، میک وغیرہ) پر اردو امداد کی دستیابی کے بعد متعدد اقسام کی کوششیں انفرادی یا محدود پیمانوں پر کی جاچکی ہیں اور ان میں سے اکثر محض ونڈوز یا میک کی امداد کو استعمال بناتے ہوئے پہلے سے موجود نوری نستعلیق کی نقل ہیں اور ان میں حقوق طبع و نشر کی خلاف ورزیاں کی گئی ہیں؛ اس اقسام کے دو اہم ترین اور مشہور ترین فانٹ میں علوی نستعلیق اور جمیل نوری نستعلیق شامل ہیں[10] جن میں حق طبع و نشر کو پامال کیا گیا۔
نستعلیق کا حسن اور کمپیوٹر
[ترمیم]نستعلیق کا حسن ہو یا کسی دوسرے (جیسے نسخ یا ٹائمز نیو رومن وغیرہ) فانٹ کا ہو، جب بات کمپیوٹر کی آتی ہے تو حقیقت یہ ہے کہ کمپیوٹر کسی خط کو حسین بنانے یا بدصورت بنانے کا کام نہیں کرتا اور نا ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ نستعلیق کمپیوٹر پر اچھا نظر نہیں آتا اور نا ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ نسخ کمپیوٹر پر اچھا نظر آتا ہے یا arial نامی فونٹ کمپیوٹر پر اچھا نظر آتا ہے۔ اصل معاملہ اس فانٹ کے سافٹ ویئر کی لطافت اور نزاکت کا ہوا کرتا ہے؛ اور کمپیوٹر کچھ بنائے بگاڑے بغیر جو اس کو دیا جائے وہی دکھاتا ہے۔ ایک اچھے فانٹ میں درج ذیل خصوصیات شامل ہونا آج کے معیار کے مطابق ضروری ہیں؛ جن کا تعلق اس خط سے نہیں جس میں وہ تحریر ہو بلکہ اس فانٹ کے سافٹ ویئر سے ہے۔
ویب فانٹ کی خصوصیات اور دستیاب نستعلیق
[ترمیم]ویب فانٹ کی خصوصیات میں وہ تمام تر خصوصیات شامل ہونا چاہیں جو ہاتھ سے تحریر کی گئی ایک عمومی خطاطی میں ہوا کرتی ہیں اور ان میں سب سے اہم؛ معنوی، رعنائی اور طبعائی خصوصیات شامل ہیں۔ ان خصوصیات کے علاوہ بھی ایک ویب فانٹ میں متعدد ایسے خصائص کی ضرورت ہوتی ہے جو اس فانٹ کی ویب براؤزر تک رسائی ممکن بنانے کو لازم ٹہرتی ہیں۔
- ڈسپلے پر آنے کے بع پڑھنے میں آسان ہو۔
- تبصرہ:- عموماً ویب گاہ پر مواد اخباری (اور بعض اوقات کتابی یعنی اخباری سے کچھ بڑی) جسامت میں پیش ہوتا ہے اور توقع یہی ہونی چاہیے کہ صارف یا قاری کو اپنے کمپیوٹر میں کسی ترمیم کے بغیر وہ ایسے ہی درست نظر آئے جیسا کہ اسے دیگر مواقع اور زبانوں کے فونٹس نظر آتے ہوں
- وہ فانٹ (نہ کہ خطاطی انداز) اپنی وسعت میں عالمگیر یا بین الاقوامی حدود پر ہو یا ان حدود کے نزدیک ہو۔
- تبصرہ:- یہاں مراد اس انداز خطاطی کے بین الاقوامی ہونے سے نہیں بلکہ وہ مخصوص ذیلی سافٹ ویئر جس پر وہ فونٹ مشتمل ہو اسے بین الاقوامی حدود پر ہونا چاہیے
- جسامت: ایک فانٹ کی جسامت سے مراد اس کے حروف میں سب سے بالائی مقام سے سب سے نچلے مقام تک کا فاصلہ ہوا کرتا ہے۔
- تبصرہ1:- کوئی بھی ویب گاہ تیار کرنے کے لیے متعدد جسامت کے فونٹس درکار ہوا کرتے ہیں اور ایک اچھے ویب فانٹ کی اہم خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ تمام درکار جسامتوں میں درست نظر آئے اور اس کے لیے صارف یا قاری کو خصوصی طور پر کسی قسم کے استرداف اور ضداسترداف (anti-aliasing یا aliasing) کی ضرورت نا پیش آئے۔ اور بالفرض اگر ضداسترداف کی بھی جائے تو فونٹ 8 یا کم از کم 10px کی جسامت تک درست نظر آنا چاہیے۔
- تبصرہ2:- کم جسامت پر چونکہ عکصر (pixels) بھی کم آتے ہیں اور اس وجہ سے متعدد ناقص فونٹس چھوٹی جسامت کرنے پر واضح نظر آنے کی بجائے یا تو مدھم اور دھندلے ہو جاتے ہیں یا پھر اس میں عمودی یا باریک خطوط ناقابلِ دیدنی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ عام طور پر نستعلیق میں یہ مسئلہ بہت زیادہ دیکھنے میں آتا ہے کیونکہ اس کے ربطات اگر نفاست سے نا تیار کیے گئے ہو تو کم جسامت پر اپنی صورت واضح نہیں رکھ پاتے۔
متن، زیبائشی ترسیمے اور ویب فانٹ
[ترمیم]زیبائشی یا یوں کہہ لیں کہ خطاطانہ خصوصیات عام طور پر مضامین و تحریر کے متن (text) میں گو نہیں لائی جاتیں اور ان کا استعمال فن خطاطی کے نمونوں یا باتصویر کتب یا کسی حد تک سرخیوں وغیرہ میں دیکھا جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود چند ایسے زیبائشی حروف یا خطوط یا اسلوب بھی ہیں جو متن میں بعض اوقات درکار ہوتے ہیں۔ اور ایک اچھے ویب فانٹ میں ان زیبائشی ترسیموں کی موجودگی اردو متن میں لازمی ہے۔
- زیرسطر: یہ ایک قسم کی افقی لکیر ہوا کرتی ہے جو کوئی حرف نہیں بلکہ ایک زیبا ہے اور اس کا استعمال کسی تحریر کے کسی حصے پر زور دینے کے لیے بکثرت کیا جاتا ہے۔ اردو کی پرانی کتب میں عام طور پر یہ اسلوب زیرسطر (underline) نہیں بلکہ زبرسطر (upperline) کے طور پر پایا جاتا تھا لیکن انگریزی کے سیلاب اور شمارندی علوم میں اردو والوں کی ناکارہ کارکردگی کی وجہ سے یہ زبرسطر کا اسلوب کم از کم شمارندی فونٹس سے ناپید ہو چکا ہے۔
- مائلہ: تحریر یا حروف مائلہ (italic) کا رواج بھی اردو نستعلیق میں ہی نہیں بلکہ اردو خطاطی میں کم یا غیر حاضر ہی رہا ہے جبکہ اردو عبارت میں اس قسم سے تحریر کو دیگر متن کی تحریر سے الگ کرنے کا کام حروف مائلہ کی بجائے شکستہ نستعلیق نما شکل اختیار کر کہ کیا جاتا تھا اور عام طور پر اس مقصد کے لیے ایک زیبائشی خط بنام تطویل (elongation) استعمال میں لایا جاتا تھا۔
- تطویل: تطویل کوئی حرف نہیں بلکہ ایک ربطہ کی مانند ایسا اکائی ہے جو رومن ابجد کے متن میں اہم ہو یا نہ ہو اردو کے متن میں ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے بلکہ کسی اچھی تحریر یا کتاب کو لکھنے کے لیے تطویل کشیدہ کی اہمیت ایک حرف ہی کے جیسی ہوتی ہے۔ اردو تحریر میں متعدد مقامات پر تطویل کی ضرورت ایسے ہی پیش آتی ہے جیسے کہ انگریزی یا رومن عبارتوں میں مائلہ کی ہوتی ہے۔ اس تطویل کی ایک مثال عبارت میں آجانے والا کوئی شعر ہے جہاں اس کے مصروں کو یکساں طول دینے کی خاطر تطویل استعمال ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی اچھی نستعلیق کی لکھی کتب میں متن کی تحریر کو حاشیوں تک ہم آہنگ بنانے کے لیے بھی تطویل کا استعمال کیا جاتا ہے۔ انگریزی (یا آج کل شمارندوں پر) اس کام کو حروف و الفاظ کے مابین فضاء کم زیادہ کر کہ لیا جاتا ہے لیکن اردو کی عبارت پر موافق نہیں اور تطویل ہی مستعمل دیکھی جاتی ہے۔
- مذکورہ بالا ترسیموں کے علاوہ بھی متعدد غیر حرفی ترسیمے اردو کی تحریر میں بکثرت درکار ہوتے ہیں جن کی ایک اچھے کمپیوٹر یا ویب فانٹ میں دستیابی لازم آتی ہے۔ ان میں سے چند عام طور پر ملنے والی اشکال یا مثالوں میں؛ سن (تاریخ) علامت فائل:Sannuqta.png یا فائل:Sanhamza.png، عدد علامت فائل:ADAD.PNG، تخلص علامت فائل:Takhallus.png، شعر علامت فائل:Sheyralamat.png، صفحہ عدد علامت فائل:Safhaadad.png اور مصرع علامت فائل:Misra.png وغیرہ شامل ہیں۔ مذکورہ بالا عام مثالوں کے علاوہ بھی خصوصی ترسیمے اردو تحریر میں لازم آتے ہیں جن کی چند اور مثالوں کے لیے خصوصی محارف کا صفحہ دیکھا جا سکتا ہے۔
نگارخانہ
[ترمیم]مزید دیکھیے
[ترمیم]حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ Payman Hamed۔ "Famous Calligraphers - Persian Calligraphy- All about Persian Calligraphy"۔ www.persiancalligraphy.org۔ 25 اکتوبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اپریل 2020
- ↑ "The Scripts"۔ 14 دسمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 دسمبر 2013
- ↑ Religion, art, and visual culture. by S. brent
- ↑ "noori nastaliq in inpage"۔ 07 ستمبر 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 دسمبر 2014
- ↑ The Rotarian: an international magazine; مئی 1984
- ↑ "InPage Manufacturer"۔ 27 جنوری 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2021
- ↑ axis computers
- ↑ فیض نستعلیق کا ویب گاہ
- ↑ فیض نستعلیق کی تیاری
- ↑ "حقوق طبع و نشر کی خلاف ورزی"۔ 20 جون 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 دسمبر 2014
- اسرافیل شرچی، آموزش خط پایہ، روہم ناشران، تہران، 1998ء۔
بیرونی روابط
[ترمیم]- نستعلیق بلاگآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ nastaleeq.org (Error: unknown archive URL)
- نستعلیق بلاگ