قرۃ العين حيدر
قرۃ العين حيدر | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 20 جنوری 1927ء [1] علی گڑھ |
وفات | 21 اگست 2007ء (80 سال)[2][1] نوئیڈا |
شہریت | بھارت (26 جنوری 1950–) برطانوی ہند (–14 اگست 1947) ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950) |
والد | سجاد حیدر یلدرم |
عملی زندگی | |
مادر علمی | لکھنؤ یونیورسٹی اندر پرستھ کالج برائے نسواں، دہلی |
پیشہ | ماہرِ لسانیات ، مصنفہ ، مترجم |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
اعزازات | |
پدم بھوشن (2005)[3] گیان پیٹھ انعام (1989)[4] پدم شری اعزاز برائے ادب و تعلیم (1984)[5] ساہتیہ اکادمی ایوارڈ (برائے:پت جھڑ کی آواز ) (1967)[6] |
|
دستخط | |
درستی - ترمیم |
قرۃ العین حیدر بھارت میں مقیم اردو کی ایک خاتون ناول نگار تھیں۔
ابتدائی زندگی
[ترمیم]20 جنوری، 1927ء میں اتر پردیش کے شہر علی گڑھ میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد سجاد حیدر یلدرم اردو کے پہلے افسانہ نگار شمار کیے جاتے ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد قرۃ العین حیدر کا خاندان پاکستان چلا گیا۔ لیکن بعد میں انھوں نے بھارت آ کر رہنے کا فیصلہ کیا۔
ادب
[ترمیم]قرۃالعین حیدر صرف ناول نگاری کے لیے ہی نہیں بلکہ اپنے افسانوں اور بعض مشہور تصانیف کے ترجموں کے لیے بھی جانی جاتی ہیں۔ ان کے مشہور ناولوں میں آگ کا دریا، آخرِ شب کے ہم سفر، میرے بھی صنم خانے، چاندنی بیگم اور کارِ جہاں دراز شامل ہیں۔
اندر پرستھ کالج دہلی[7] سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ لکھنؤ چلی گئیں اور لکھنؤ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ پھر ازابیلا تھبرن کالج میں بھی تعلیم حاصل کی اور 1947ء میں پاکستان چلی گئیں۔ اس کے بعد کچھ دن برطانیہ میں رہیں اور پھر 1960ء میں بھارت آ گئیں اور نوئیڈا منتقل ہونے سے قبل 20 برس ممبئی میں رہیں۔ نوئیڈا میں ہی ان کا انتقال ہوا۔ انھوں نے شادی نہیں کی۔
تقسیم ہند کے وقت وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ پاکستان چلی گئیں۔[8] 1959ء میں ان کا ناول آگ کا دریا منظر عام پر آیا جس پر پاکستان میں بہت ہنگامہ ہوا۔ اس کے فوراً بعد انھوں نے بھارت واپس جانے کا فیصلہ کیا جہاں[8] وہ بطور صحافی کام کرتی رہیں اور افسانے اور ناول بھی لکھتی رہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے ادبی تراجم بھی کیے۔ ان کی کتابوں کی تعداد 30 سے زیادہ ہے۔ انھوں نے 1964ء تا 1968ء ماہنامہ امپرنٹ کی ادارت کی اور السٹریٹیڈ ویکلی آف انڈیا میں اداریہ لکھتی رہیں۔ ان کی کتابیں انگریزی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ ہوئی ہیں۔
ناول
[ترمیم]ان کے سبھی ناولوں اور کہانیوں میں تقسیم ہند کا درد صاف نظر آتا ہے۔ ان کے دو ناولوں آگ کا دریا اور آخر شب کے ہم سفر کو اردو ادب کا شاہکار مانا جاتا ہے۔
آخرِ شب کے ہم سفر کے لیے 1989ء میں انھیں بھارت کے سب سے باوقار ادبی اعزاز گیان پیٹھ انعام سے بھی نوازا گیا جبکہ بھارتی حکومت نے انھیں 1985ء میں پدم شری اور 2005ء میں پدم بھوشن جیسے اعزازات بھی دیے۔
شعور کی رو
[ترمیم]11 سال کی عمر سے ہی کہانیاں لکھنے والی قرۃ العین حیدر کو اردو ادب کی ورجینیا وولف کہا جاتا ہے۔ انھوں نے پہلی بار اردو ادب میں سٹریم آف کونشیئسنسرا تکنیک کا استعمال کیا تھا۔ اس تکنیک کے تحت کہانی ایک ہی وقت میں مختلف سمت میں چلتی ہے۔
اعزازات
[ترمیم]انھیں ساہتیہ اکادمی اور گیان پیٹھ انعام کے اعزازات بھی مل چکے ہیں۔ ساہتیہ اکیڈمی اعزاز ان کے افسانوی مجموعہ پت جھڑ کی آواز پر 1967ء میں تفویض ہوا جبکہ گیان پیٹھ اعزاز 1989ء میں آخرِ شب کے ہم سفر پر دیا گیا تھا۔ انھیں پدم بھوشن اور جنان پیٹھ اعزازت سے بھی نوازا گیا ہے۔
وفات
[ترمیم]ان کی وفات 21 اگست 2007ء کو نوئیڈا میں ہوئی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں مدفون ہوئیں۔[9]
تصانیف
[ترمیم]- آگ کا دریا
- آخرِ شب کے ہم سفر (گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ)
- میرے بھی صنم خانے
- چاندنی بیگم
- کارِ جہاں دراز ہے
- روشنی کی رفتار
- سفینۂ غمِ دل
- پت جھڑ کی آواز (ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ)
- گردشِ رنگِ چمن
- چائے کے باغ
- دلربا
- اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو
مزید مطالعات
[ترمیم]حوالہ جات
[ترمیم]- ^ ا ب عنوان : Encyclopædia Britannica — دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/Qurratulain-Hyder — بنام: Qurratulain Hyder ��� اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/6956218.stm
- ↑ https://www.outlookindia.com/website/story/padma-awards-2005/226328 — اخذ شدہ بتاریخ: 19 فروری 2020
- ↑ http://www.jnanpith.net/page/jnanpith-laureates
- ↑ http://www.dashboard-padmaawards.gov.in/?Year=1984-1984 — اخذ شدہ بتاریخ: 19 فروری 2020
- ↑ http://sahitya-akademi.gov.in/awards/akademi%20samman_suchi.jsp#URDU
- ↑ "Vital statistics of colleges that figure among India's top rankers"۔ انڈیا ٹوڈے۔ 21 مئی 2001۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-07-07
- ^ ا ب Ahsan، Kamil (22 جولائی 2019)۔ "The Alternate India"۔ The Nation۔ 2019-07-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-07-26
- ↑ Hyder، Qurratulain (جون 2003)۔ River of Fire۔ Editorial Reviews: About the Author۔ ISBN:0-8112-1533-4۔
"With her unfortunate passing, the country has lost a towering literary figure."
{{حوالہ کتاب}}
: اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: مقام بدون ناشر (link)
بیرونی روابط
[ترمیم]- چند یادگار تصویریںآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ bbc.co.uk (Error: unknown archive URL)
- جب عینی نے مجھے ڈانٹ لگائی۔۔۔
- سورج کو جھونکا ہوا کا بجھا گيا
- قرۃ العین، ایک گھنا درخت: شہریار
- قرۃ العین حیدر کی دوسری برسی پر[مردہ ربط]
- قرۃالعین حیدر کے بارے میں لائبریری کانگریس میں
ویکی اقتباس میں قرۃ العين حيدر سے متعلق اقتباسات موجود ہیں۔ |
- 1927ء کی پیدائشیں
- 20 جنوری کی پیدائشیں
- 2007ء کی وفیات
- 21 اگست کی وفیات
- پدم بھوشن وصول کنندگان
- گیان پیٹھ انعام وصول کنندگان
- ادب اور تعلیم کے شعبے میں پدم شری وصول کنندگان
- ساہتیہ اکیڈمی کے اعزاز یافتگان
- اتر پردیش کی مصنفات
- اتر پردیش کے ناول نگار
- ادب اور تعلیم کے شعبے میں پدم بھوشن وصول کنندگان
- اردو افسانہ نگار
- اردو ناول نگار
- بیسویں صدی کی بھارتی مصنفات
- بیسویں صدی کے بھارتی افسانہ نگار
- بیسویں صدی کے بھارتی مترجمین
- بیسویں صدی کے بھارتی مصنفین
- بیسویں صدی کے ہندوستانی ناول نگار
- بھارت کے پاکستانی تارکین وطن
- بھارت کے اردو مصنفین
- بھارتی افسانہ نگار خواتین
- بھارتی خواتین مترجمین
- بھارتی خواتین ناول نگار
- بھارتی مسلم شخصیات
- پاکستانی ڈراما نگار اور ڈراما نویس
- جامعہ ملیہ اسلامیہ کا تدریسی عملہ
- ساہتیہ اکیڈمی اعزاز یافتگان برائے اردو ادب
- علی گڑھ کی شخصیات
- لکھنؤ یونیورسٹی کے فضلا
- مہاجر شخصیات
- مہاجر نسل کی بھارتی شخصیات
- بیسویں صدی کے بھارتی ڈراما نگار اور ڈراما نویس
- بھارتی خواتین ڈراما نگار اور ڈراما نویس
- پاکستانی خواتین ناول نگار