مندرجات کا رخ کریں

راجہ سائیں سجاول خان

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

راجا سائیں سجاول خان عارف يگانہ، قلندر زمان، واقف اسرار رموز حقیقت، فخر العصر جیسے القاب سے معروف ہیں۔

تعارف

[ترمیم]

بابا راجا سائیں سجاول خان ضلع اسلام آباد کے ایک دورافتادہ گاؤں میرا بیگوال کے ایک خوش حال زمیندار گھرانے کے چشم و چراغ راجا امیر زمان کے گھر 1315ھ بمطابق 1898ء میں آپ کی ولادت ہوئی۔

آباؤاجداد

[ترمیم]

آپ کے آبا و اجداد کا تعلق دھنیال راجپوت خاندان سے تھا۔ خاندان کے تمام افراد زمیندار کھیتی باڑی کر کے اپنی گذر بسر کرتے تھے۔ آپ کے والد کا شمار گاؤں کے معززین میں ہوتا تھا۔ آپ کے والد انتہا درجہ کے نیک اورمحنتی جفاکش انسان تھے۔ گھر کا ماحول بہت سادہ اور صاف و شفاف تھا۔ ایسے ماحول میں آپ کی پرورش ہوئی۔

عملی زندگی

[ترمیم]

آپ نے کچھ عرصہ تک فوج میں بھی ملازمت کی آپ 1914ء میں بھرتی ہوئے اور جنگ عظیم کے فورا بعد واپس تشریف لے آ ئے۔ نوکری کو خیر باد کہہ کر اپنی زمینوں کی دیکھ بھال اور کاشتکاری میں مصروف ہو گئے۔ آپ دن کے وقت اپنے مال مویشی چرانے کے لیے جنگل میں لے جاتے اور مویشیوں کو چرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیتے اور آپ بذات خود یادخدا میں مشغول ہو جاتے۔ خدا کی عبادت و ریاضت کے دوران میں آپ خدا کی مخلوق اور کائنات کی تخلیق کی طرف بغورنظر دیکھتے رہتے۔ اس کشمکش میں آپ کے سینے میں عشق الہی کی آگ بھڑک آئی اور کافی عرصہ اس آگ میں جلتے رہے۔

خضر علیہ السلام سے ملا قات

[ترمیم]

ایک دن آپ حسب معمول جنگل میں مویشی چرانے میں مصروف تھے کہ نماز کا وقت ہو گیا۔ آپ نماز میں مصروف ہو گئے نماز سے فارغ ہوئے تھے کہ خواجہ خضر علیہ السلام تشریف لائے اور آپ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ کیا چھ ماہی والے کو پیر نے پکڑ لیا۔ میں ہی تمھارا پیرہوں اور میرانام خود خضر ہے۔اس کے بعد فرمایا کہ توتم مجھے نہیں ڈھونڈ سکو گے نہ مل سکو گے مگر جب کبھی بھی تم ہمیں یاد کروگے میں تمھیں مل جایا کروں گا۔آپ کے والدین نے جب آپ کی یہ کیفیت دیکھی تو ان سے نہ رکا گیا۔ آپ کی والدہ نے آپ سے فرمایا کہ آپ جس سکون قلب کے لیے بیتاب ہیں ہو سکتا ہے کہ آپ کو موہڑہ شریف سے مل جائے۔ اس لیے میرے ساتھ موہڑہ شریف چل کر خواجہ قاسم صادق کی خدمت میں حاضری دو۔ آپ اپنی والدہ کے ہمراہ حضرت خواجد قاسم والی موہڑہ شریف کی خدمت میں حاضر ہوئے تو وہاں پرعوام کا پہلے سے جم غفیر موجود تھا۔ چنانچہ جہاں آپ کو جگہ ملی وہیں بیٹھ گئے اور دل میں خیال کیا کہ اگر خواب قاسم صاحب کشف ہوئے تو خود بخود بلالیںگے۔ ابھی آپ کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا تھا کہ خواجہ قاسم موہڑوی نے آپ کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا کہ یہ کس طرح آئے ہو؟ آپ نے عرض کیا کہ حضور مجھے میرا پیر ملادیں۔ خواجہ قاسم موہڑوی نے فرمایا صبح کے وقت آنا۔ صبح حاضری دی اور اپنا سوال دہرایا تو حضرت خواہ موہڑوی نے فرمایا کہ آپ کا پیر آخرای زمین پر ہوگا۔ آپ مجھ سے بیعت ہو جائیں۔ آپ نے عرض کیا حضور مجھے اپنا پیرہی چاہیے اس پر خواجہ موہڑوی نے فرمایا اچھا تم اپنے گھر چلے جاو اور کسی کمرے میں تنہائی اختیار کرو ہیں تمھارا پیر مل جائے گا۔ لہذا آپ واپس اپنے گھر تشریف لے آئے اور تنہائی کے عالم میں ہر وقت اپنے پیر خواجہ خضر علیہ السلام کو یاد کرتے اور ان کی جدائی میں روتے رہے۔ تقریباً تین ماہ تک اس کیفیت سے دوچار ہے اس دوران میں آپ کو کھانے پینے کا کوئی ہوش نہ تھا۔ بس ایک کمرہ تھا اور یاد خدا میں مست ہو کر مر شدہ کا انتظارتھا۔ آپ حسب معمول خلوت کے عالم میں مصروف تھے کہ ایک دن حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ حضرت خضر علیہ اسلام نے اپنی زیارت سے مشرف کرانے کے بعد آپ کو باطنی فیوض و برکات سے مستفید فرمایا اور آپ کوتسلی دی اس کے بعد آپ خلوت سے جلوت میں تشریف لائے اور پہلے کی طرح کھانا پینا اور لوگوں سے ملاقات کا سلسلہ شروع کر دیا۔

راولپنڈی میں قیام

[ترمیم]

جب آپ راولپنڈی میں قیام پزیر ہو گئے تو آپ کا معمول تھا کہ آپ دشام کے وقت تھوڑے سے وقت کے لیے کمرے سے باہرنکل کر باغ سرداراں کی طرف چلے جاتے۔ باغ سرداراں کے سامنے ایک چھوٹی سی مسجد جو آج کل جامع مسجد غوثیہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے قریب ٹھہرے

سیرت و کردار

[ترمیم]

آپ انتہائی درجہ کے ذاکر و شغل عبادت گزار پان تہجد اور دیگر نوافل کثرت سے ادا فرماتے تھے۔ ہر وقت ذکر خدا میں مست الست رہتے کوئی لمحہ یادخدا سے خالی نہ ہوتا۔ مخلوق خدا کی خدمت کو اپنا شعار سمجھتے تھے حسن اخلاق میں یکتائے روزگار تھے۔ آپ کی خدمت میں آنے والا آپ کاہو کے رہ جاتا۔سخاوت میں ہے مثل و بے مثال تھے۔ ہمیشہ فیض وکرم کا دریاء جوش میں رہتا۔ آپ صاحب تصوف کشف و کرامات بزرگ تھے۔ آپ کی نگاہ کیمیا کا اثر ریگی۔

وصیت

[ترمیم]

آپ نے اپنے وصال سے پہلے اپنے خدام مریدین کو بتادیا تھا کہ میرے وصال کے بعد مجھے میرے گاؤں میں دفن کرنا اور فلاں جگہ پر میری قبر بنانا اور یہ بھی فرمایا کہ میرے وصال والے دن موسلادھار بارش ہوگی اور میری نماز جنازہ پڑھانے کے لیے کسی کو مت کہنا شمال کی جانب سے ایک شخص آئے گا جومیری جنازہ پڑھائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آپ کے وصال والے دن موسلا دھار بارش ہوئی۔ آپ کی لحد مبارک پر شامیان لگا کر کھدائی کی گئی اور اسی طرح تدفین بھی گئی اور نماز جنازہ پڑھانے کے لیے شمال کی جانب پہاڑوں سے ایک شخصیت کی آمد ہوئی صفیں درست تھیں۔ انھوں نے آ کرمصلے امامت پر قدم رکھا اور نماز جنازہ پڑھائی اور واپس تشریف لے گئے کسی کونہیں معلوم کہ آ نے والے کون اور کہاں سے تشریف لائے تھے۔

وفات

[ترمیم]

آپ کا وصال مؤرخہ دو دسمبر 1964ء بروز بدھ بمطابق 2رجب المرجب شریف 1384ھ شب معراج کو69برس کی عمر شریف میں ہوا۔ مزار بہارہ کہو سے دس کلومیڑ دو میرا بیگوال ضلع اسلام آباد شاہراہ مری میں مرجع خلائق ہے۔[1] [2]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. تذکرہ اولیائے پوٹھوہار صفحہ 134،صاحبزادہ مقصود احمد صابری ہاشمی پبلیکیشنزراولپنڈی
  2. انسائیکلوپیڈیا اولیائے کرام، ،ص671،مقصود احمد صابری، عبد اللہ اکیڈمی اردو بازار لاہور