جرجیس
Saint George | |
---|---|
Saint George by ڈوناٹیلو, c. 1415 | |
Martyr, Patron of England | |
پیدائش | 3rd Century Cappadocia Province, رومی سلطنت |
وفات | 23 April 303 لد, سوریہ فلسطین, Roman Empire[1][2] |
مزار | سانچہ:Indented plainlist |
تہوار | سانچہ:Indented plainlist |
منسوب خصوصیات | Clothed as a صلیبی جنگیں in plate armour or mail, often bearing a lance tipped by a cross, riding a white horse, often slaying a اژدہا. In the Greek East and Latin West he is shown with St George's Cross emblazoned on his armour, or shield or banner. |
سرپرستی | Many patronages of Saint George exist around the world |
جرجیس قوم بنی اسرائیل کے انبیا میں سے ایک نبی تھے، جنھوں نے زمانہ فترۃ میں زندگی بسر کی۔ جرجیس کے قصہ کو امام ابن جریر طبری نے اپنی تاریخ میں وہب بن منبہ سے سند کے ساتھ بیان کیا ہے، وہب بن منبہ تابعی تھے، عام طور سے اسرائیلیات کو لیا کرتے تھے، مؤرخ ابن اثیر نے بھی اپنی کتاب "الکامل فی التاریخ" میں اس کو بغیر سند کے بیان کیا ہے، بعض علما نے تو جرجیس کی نبوت کے متعلق بھی کلام کیا ہے، ابن حجر عسقلانی نے نبوت سے متعلق اقوال کو ضعیف قرار دیا ہے، اس لیے کہ مورخین نے ان کے زمانہ کو حضرت عیسی اور محمد کے درمیان کا زمانہ فترت بیان کیا ہے اور صحیحین کی روایت ہے کہ: میں لوگوں میں عیسی کے سب سے زیادہ قریب ہوں، تمام انبیا علاتی بیٹے ہیں، میرے اور عیسی کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے۔[3]
ابن بابویہ، قطب راوندی نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ حضرت جرجیس اہل روم سے تھے اور فلسطین میں سکونت پزیر ہوئے، اللہ تعالی نے آپ کو شام کے بادشاہ داذانہ کی طرف بھیجا۔[4]
حضرت جرجیس کا نام قرآن کریم میں موجود نہیں لیکن تفاسیر اور اسلامی قصوں میں آپ کا ذکر ملتا ہے[5] حضرت جرجیس کے بارے میں طبری نے لکھا ہے کہ آپ نے فلسطین جا کر حضرت عیسیٰ کے حواریوں کو تلاش کیا اور ان سے آئین مسیحیت کے بارے میں بہت معلومات حاصل کیں۔[6] کچھ عرصہ فلسطین میں مقیم رہے لیکن جب وہاں کے حالات نامساعد ہوئے تو آپ نے فلسطین سے موصل یا شام کی طرف مہاجرت اختیار کی۔[7]
کتاب "مروج الذہب و معادن الجوہر" میں بیان کیا گیا ہے کہ عیسی مسیح کے بعد زمانہ فترت میں تھے، بعض حواریین بھی ان کے ساتھ رہے، پھر انھیں موصل (نینویٰ) کے بادشاہوں کے پاس بھیجا جہاں انھوں نے اللہ کی دعوت دی، انھیں قتل کر دیا گیا، اللہ نے انھیں دوبارہ زندہ فرمایا، پھر تیسری مرتبہ (اس بادشاہ نے) ان کے جسم کو چیرنے اور اس کو جلانے پھر اس کو دریائے دجلہ میں پھینکنے کا حکم دیا، پھر اللہ نے اس بادشاہ کو اور اس کے متبعین ہلاک کر دیا۔ جیسا کہ اہل کتاب کی اخبار میں بیان ہوا ہے۔[8]
دین کی تبلیغ
[ترمیم]فلسطین کا بادشاہ جس کا نام داذیانہ یا رازانہ بیان کیا گیا ہے وہ فلسطین میں عیسائیوں کو شکنجہ کرتا اور بعد میں قتل کر دیتا تھا، حضرت جرجیس نے اسے یکتا پرستی کے لیے دعوت دی اور روشن دلائل کے ساتھ اس کے مذہب بت پرستی کو باطل ثابت کیا، لیکن اس بادشاہ پر آپ کی تبلیغ کا کچھ اثر نہ ہوا، بلکہ اس کے برعکس بادشاہ نے حضرت جرجیس کو اپنے ایک بت جس کا نام افلون تھا کے سجدہ کرنے کا حکم دیا جس سے آپ نے انکار کیا۔[9][10] بادشاہ نے اس بت کی پوچا نہ کرنے اور اس کے سامنے سجدہ سے انکار کی وجہ سے حضرت جرجیس کو زندہ میں قید کر دیا اور حکم دیا کہ انھیں شکنجہ میں ڈالا جائے، آپ نے ہر تحمل کیا اور بقید حیات رہے۔آخر کار اللہ تعالی کی جانب سے وحی نازل ہوئی کہ:
نہ ڈر اور صبر کر، اللہ تعالی تیرے ساتھ ہے، یہ لوگ تجھے چار مرتبہ قتل کریں گے اور میں تجھے زندہ کروں گا اور چوتھی بار تجھے اپنے پاس بلا لوں گا۔[11] ایک قول کے مطابق ارشاد خداوند ہوا کہ میں چوتھی بار تجھے فتح دوں گا اور تو بادشاہ کو قتل کرے گا اور دین حق کو پھیلائے گا۔[12]
اس مدت میں کہ جو ظاہراً سات سال تھی حضرت جرجیس کو مختلف آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا، کبھی آپ کے بدن کو ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا، کبھی آپ کے بدن کو جلا کر خاکستر کر دیا گیا، ہر دفعہ آپ کی روح پرواز کر جاتی اور آپ حکم خداوند سے زندہ ہو جاتے، ان شکنجوں کی تفصیل اسلامی کتب میں مرقوم ہے۔[13]
اس تمام مدت میں آپ پر ایمان لانے والوں کی تعداد چار ہزار تھی، بعض کے نزدیک حضرت جرجیس پر ایمان لانے والوں کی تعداد چونتیس ہزار افراد تھی۔[14]
بادشاہ کی بیوی جس کا نام اسکندرہ تھا وہ بھی حضرت جرجیس پر ایمان لانے والوں میں سے تھی اور بادشاہ نے ظلم کر کے حضرت جرجیس پر ایمان لانے والوں کو شکنجوں میں ڈال کر شہید کر دیا تھا حتی کہ اپنی بیوی اسکندرہ کو بھی شہید کر دیا۔[15]
آخر کار خداوند کے عہد کے مطابق حضرت جرجیس کو جب چوتھی مرتبہ شکنجہ میں ڈالا گیا تو آپ خالق حقیقی سے جا ملے اور پھر زندہ نہ ہوئے، اس کے بعد کافروں کے لیے اللہ تعالی کی نفرین اور عذاب الہی آیا جس سے وہ نابود ہو گئے۔[16]
معجزات
[ترمیم]حضرت جرجیس کے معجزات میں سے مُردوں کو زندہ کرنا، خشک لکڑیوں کو سرسبز کرنا، اندھوں کو بینا کرنا ہیں۔[17]خداوند متعال نے حضرت جرجیس کے لیے مردوں کو زندہ کیا جیسا کہ علامہ مجلسیؒ نے اپنی کتاب بحار الانوار میں لکھا ہے:
ایک عورت حضرت جرجیس کی خدمت میں آئی اور کہا کہ اے نیک بندہ! میری ایک گائے تھی جس کے سبب ہماری زندگی کی کا معاش اور گذر بسر تھی وہ مر چکی ہے، حضرت جرجیس نے فرمایا کہ میرا عصا لے کر جا اور اپنی گائے کو مار، ساتھ یہ کہنا کہ حضرت جرجیس کہہ رہے ہیں کہ اللہ تعالی کے حکم سے زندہ ہو جا، پس جیسے ہی اس عورت نے وہ عصا گائے کو مارا تو وہ زندہ ہو گئی اور یہ معجزہ دیکھ کر وہ عورت خداوند پر ایمان لائی۔[18]
مدفن
[ترمیم]حضرت جرجیس کی شہادت کے بعد آپ کا مدفن نامعلوم ہے بعض لوگوں نے بیان کیا ہے کہ آپ کو ایران کے شہر شوشتر میں دفن کیا گیا ہے۔[19]
جبکہ کچھ افراد نے آپ کا مدفن عراق کے شہر موصل میں لکھا ہے۔[20]
حضرت جرجیس بھی حضرت ایوب کی طرح صبر و بردباری میں اپنی مثال آپ تھے، آپ راہِ حق میں استقامت رکھتے تھے اور باطل پرستوں کے سامنے جھکنے کی بجائے شکنجہ اور مرنے کو ترجیح دینا آپ کی اولین ترجیح تھی۔
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ "Saint George"۔ Encyclopædia Britannica (Online ایڈیشن)۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جولائی 2022
- ↑ "St. George"۔ Catholic Encyclopedia۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جولائی 2022
- ↑ "إسلام ويب"۔ 07 جون 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اگست 2019
- ↑ حیات القلوب علامہ مجلسی ص475
- ↑ حیات القلوب علامہ مجلسی جلد2 ص 1293، تفسیر طبری جلد3 ص695، بلعمی ص599
- ↑ طبری جلد2 ص48، بلعمی ص599، میرخواند جلد 1 ص479
- ↑ قطب رواند�� ص238
- ↑ کتاب مروج الذہب و معادن الجوہر - ابی الحسن علی بن الحسین بن علی المسعودی - فصل الفترۃ بعد المسیح
- ↑ ثعلبی ص386-387، ابن اثیر جلد 1 ص239، مجمل التواریخ ص223، دینوری ص45، بحار الانوار جلد14 ص445
- ↑ نیشاپوری ص473
- ↑ طبری جلد 2 ص49-50، ثعلبی ص387-388، جزائری 506-507
- ↑ ترجمہ تفسیر طبری جلد3 ص698-699، سور آبادی ص56، نیشاپوری ص471، حمد اللہ مستوفی ص61
- ↑ طبری جلد2 ص50-54
- ↑ طبری جلد2 ص55، سور آبادی ص56، ابن اثیر جلد1 ص243
- ↑ طبری جلد2 ص54-55، نیشاپوری ص477، ثعلبی ص392
- ↑ طبری جلد2 ص55
- ↑ طبری جلد2 ص51-53
- ↑ بحار الانوار جلد14 ص447
- ↑ اقتداری جلد1 ص819، غروی ص45، پاپلی یزدی ص628
- ↑ ھروی ص69