حسن نظامی
خواجہ حسن نظامی | |
---|---|
پیدائش | حسن نظامی اتوار 2 محرم الحرام 1295ھ/ 6 جنوری 1878ء دہلی، بھارت |
وفات | اتوار 10 ذوالحجہ 1374ھ/ 31 جولائی 1955ء بستی درگاہ خواجہ نظام الدین اولیا، نئی دہلی، بھارت |
رہائش | نئی دہلی |
اسمائے دیگر | حسن نظامی |
پیشہ | ادب سے وابستگی، صوفی طریقہ |
وجہِ شہرت | شاعری، صوفی طریقہ |
مذہب | اسلام |
شریک حیات | سیدہ محمودہ خواجہ بانو نظامی |
مصور فطرت خواجہ حسن نظامی سلسلہ چشتیہ کے صوفی اور اردو زبان کے ادیب تھے۔ آپ کے مضامین مخزن میں چھپتے رہے۔ آپ نظام الدین اولیاء کے عقیدت مند تھے اور پیری مریدی کا سلسلہ بھی رکھتے تھے۔ حضرت نظام الدین اولیاء کی درگاہ میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد سید امام، درگاہ سے وابستہ تھے۔
ابتدائی زندگی
[ترمیم]آپ کے بزرگ شروع سے ہی تصوف کے راستے پر چلتے رہے چنانچہ خواجہ صاحب کی پرورش اور تربیت بھی اسی مذہبی اور صوفیانہ ماحول میں ہوئی۔ کبھی کسی درس گاہ سے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی اپنے طور پر پڑھتے رہے اور عربی، فارسی اور اردو میں خاصی دسترس حاصل کر لی۔ ابتدائی زندگی تنگ دستی میں گزار دی۔ پھر کتابیں بیچنے کا کاروبار شروع کیا۔ کتابوں کی گھٹری اٹھا کرپرانی دہلی سے نئی دہلی پیدل جاتے۔ اسی طرح گزراوقات ہونے لگی۔
ادبی زندگی
[ترمیم]فرصت کے اوقات لکھنے لکھانے کا کام کرتے۔ رفتہ رفتہ ان کے مضامین رسالوں اور اخباروں میں چھپنے لگے۔
ان کی صحافتی زندگی کا آغاز روزنامہ (رعیت) سے ہوا۔ اخبار (منادی) میں ان کا روزنامچہ شائع ہوتا رہا۔ خود میرٹھ سے ایک اخبار (توحید) نکالا
خواجہ صاحب اچھے اور منفرد انشاپرداز تھے سیاسی لیڈر بھی تھے اور بے باک مقرر اور خطیب بھی۔ پیری مریدی کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ بے شمار لوگ حلقہ مریدی میں داخل ہوئے۔
تصانیف
[ترمیم]خواجہ حسن نظامی کی تصانیف چالیس کے لگ بھگ ہیں جن میں سیپارہ دل، بیگمات کے آنسو، غدر دلی کے افسانے، مجموعہ مضامین حسن نظامی، طمانچہ بر رخسار یزید، سفر نامہ ہندوستان اور کرشن کتھا مشہور ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ خواجہ صاحب کی تصانیف کی تعداد چالیس ہے جبکہ ایک تحقیق کے مطابق یہ تعداد تین سو کے لگ بھگ ہے۔ خواجہ صاحب بہت زودگو انسان تھے ایک مقام پر آپ نے خود کہا ہے کہ مہینے میں ایک کتاب تو ہوجاتی ہے۔
وفات
[ترمیم]آپ نے 31 جولائی 1955ء کو دلی میں وفات پائی اور بارگاہ حضرت نظام الدین اولیاء کے احاطے میں دفن ہوئے۔