نکاح حلالہ
حلالہ،نکاح حلالہ کسی چیز کو شرعا جائز بنا لینا۔ حلال بنا لینا۔ حلال بنانے کے لیے نکاح کرنا۔
حلالہ کا مفہوم
[ترمیم]جب کوئی عورت تین طلاقوں کے بعد دوسری جگہ نکاح کرے اور پھر وہ شخص حقوق زوجیت ادا کرنے کے بعد اپنی مرضی سے اسے طلاق دیدے تو اب عدت گذارنے کے بعد پہلے خاوند سے نکاح کرنا جائز ہو گا کیونکہ دوسرے خاوند کے نکاح میں آنا اور اس کا حقوق زوجیت ادا کرنا اس عورت کو پہلے خاوند کے لیے حلال کر دیتا ہے اس لیے اس عمل کو حلالہ یا تحلیل کہا جاتا ہے
نکاح حلالہ کی تین صورتیں
[ترمیم]1۔ عمومی
[ترمیم]ایک عورت کو طلاق دی گئی عدت گذارنے کے بعد کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے یہ دوسرا شخص حق زوجیت کے بعد اپنی مرضی سے طلاق دے دوسری عدت کے بعد پہلے خاوند کے لیے حلال ہو گی یہ نکاح حلالہ کیا نہیں جاتا ہو گیاہے اس کے جائز ہونے پر تمام ائمہ کا اتفاق ہے
2۔ ارادی
[ترمیم]ایک شخص نے طلاق دی عدت گذارنے کے بعد بغیر کسی شرط دوسرے شخص سے نکاح کرے لیکن اس شخص کے دل میں یہ ارادہ ہو کہ پہلا خاوند اسے واپس لینا چاہتا ہے بچے چھوٹے ہیں انھیں سنبھالنے والا کوئی نہیں میں نکاح کر کے چھوڑ دونگا تاکہ اجڑا گھر آباد ہو ایسی صورت میں
فقہ مالکی
[ترمیم]فقہ مالکی کے مطابق یہ سرے سے نکاح حلالہ شمار ہی نہ ہوگا۔
فقہ شافعی
[ترمیم]فقہ شافعی کے مطابق اس نیت سے نکاح کرناصحیح ہوگااگرچہ اس کی کچھ شرائط ہیں۔
فقہ حنبلی
[ترمیم]فقہ حنبلی کے مطابق یہ نکاح باطل ہے حلالہ کی شرط رکھنا یا حلالہ کی نیت کرنا برابر ہیں۔
فقہ حنفی
[ترمیم]فقہ حنفی کے مطابق نکاح حلالہ صحیح ہے اگر پہلے خاوند اور بیوی کے درمیان میں صلح کرانا مقصود ہو تو باعث ثواب ہے اگر یہ مقصد شہوت پوری کرنا یا طلاق دینا ہو تو مکروہ تحریمی اور اس عمل میں شریک لوگ گناہگار ہوں گے۔ لیکن نکاح صحیح اور پہلے خاوند کے لیے حلال ہو جائے گی۔ اگر اجرت مقرر کرتا ہے تو یہ عمل حرام اور اجرت مقرر کرنے والالعنت کا مستحق ہے
3۔ مشروط
[ترمیم]مطلقہ سے نکاح کرتے وقت یہ شرط رکھی کہ جماع کے بعد طلاق دیگا تاکہ پہلے خاوند سے نکاح کرلے یہ طریقہ تمام ائمہ کے نزدیک حرام ہے۔ البتہ امام شافعی امام مالک امام حنبل کے نزدیک عورت پہلے خاوند کے لیے حلال نہیں ہوتی جبکہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک عمل حرام ہے لیکن پہلے خاوند سے نکاح کے لیے عورت جائز ہو جاتی ہے[1]
قبل از اسلام
[ترمیم]اسلام سے پہلے عرب میں یہ دستور تھا کہ اگر کوئی شخص بیوی کو طلاق دے دیتا اور پھر اس سے شادی کرنا چاہتا تو جب تک وہ کسی دوسرے شخص سے عقد کرکے طلاق نہ پاتی، پہلے شوہر سے نکاح نہیں کر سکتی تھی۔ اسلام نے اس طریقہ کوباقی رکھا تاکہ لوگ آسانی سے بیویوں کو طلاق نہ دے سکیں۔ مگر تین طلاق دینے کی صورت میں، ایک اور دو طلاق دینے کی صورت میں یہ حکم نہیں ہے۔ جو لوگ اپنی بیویوں کو تین مغلظہ طلاقیں دے دیتے ہیں وہ اگر اس عورت سے پھر نکاح کرنا چاہیں تو پہلے وہ عورت کسی سے نکاح کرے پھر اس سے طلاق لے کر پہلے شوہر سے نکاح کرسکتی ہے۔ اور اس کے لیے حلال ہے۔
لعنت کا مستحق
[ترمیم]احادیث میں حلالہ کرنے والوں کی سخت مذمت آئی ہے۔ کہ جو شخص حلالہ کرتا ہے اور جس کے لیے حلالہ کیا جاتا ہے، ان دونوں پر خدا کی لعنت۔ عمر فاروق ایسے لوگوں کو زانیوں کے برابر سمجھتے تھے۔ کیونکہ ایسے شخص کا مقصد وہ نہیں ہوتا جو شارع نے نکاح سے مراد لیا ہے۔
"حدیث میں محلل یعنی وہ دوسرا شوہر جو نکاح جیسے اہم سنجیدہ اور مقدس معاہدہ کو پہلے شوہر کی خاطر ایک کھیل اور تفریح کی چیز بنائے دیتا ہے۔ اور محلل لہ یعنی وہ پہلا شوہر جس کی خاطر معاہدہ نکاح کی اہمیت، سنجیدگی وتقدیس خاک میں ملائی جا رہی ہے، ان دونوں پر لعنت آئی ہے۔ اور اکثر فقہا کے ہاں یہ نکاح، نکاح فاسد کے حکم میں آتا ہے۔ حنفیہ کے ہاں ایسا نکاح منعقد ہو جائے گا۔ یعنی اس کا نفاذ قانونی ہو جائے گا، اگرچہ اس سے گناہ عائد ہوگا"[2]
بعض ائمہ نے اسے حلال قرار دیا ہے اور بعض نے حرام، مگر جن لوگوں نے اسے حلال قرار دیا ہے وہ بھی اسے اچھا نہیں کہتے
=== حلالہ کس کے لئے ہے؟===
جو شخض باوجود تین طلاق واقع ہوجانے کے پھر بھی بیوی کو واپس لینے پر مصر ہو تو ایسے شخص کے لیے ساری زندگی حرام کاری میں گزارنے کی بجائے مکروہ کام یعنی حلالہ کرنے کو کہا جاتا ہے کہ یہ ایک کمتر برائی ہے۔ اور اس میں اس مرد کو بھی سزا ہے کہ اس کی چھوٹی سی غل��ی سے ساری عمر کا ایک کلنک ماتھے پر لگا کہ اس کی بیوی کو حلالے سے گذرنا پڑا یہ سزا بنیادی طور پر مرد کو ہے ناکہ عورت کو کیونکہ عورت کا دوسرے شوہر سے شرعی نکاح ہوا تھا اس کے لیے اس میں کوئی عیب نہیں اور اس میں اکٹھی تین طلاق دینے والوں کے لیے ایک ذہنی سزا بھی ہے
حلالہ اور متعہ میں فرق
[ترمیم]متعہ اور حلالہ میں تھوڑا سا فرق ہے۔ وہ یہ کہ متعہ صریح طور پر ایک متعین مدت کے لیے ہوتا ہے اس وجہ سے اس کے متعلق واضح طور پر ایک فقیہ یہ حکم لگا سکتا ہے کہ یہ نکاح منعقد نہیں ہوا لیکن حلالہ کی نوعیت ایک درپردہ سازش کی ہوتی ہے، اس کے متعلق کوئی ظاہری ثبوت اس بات کا موجود نہیں ہوتا کہ نکاح کے نام سے یہ اللہ کی شریعت کے ساتھ مذاق کیا گیا ہے۔ اس وجہ سے اللہ کے نزدیک تو یہ نکاح اور یہ طلاق سب باطل ہوگا لیکن ایک فقیہ جو صرف ظاہر حالات کو سامنے رکھ کر فتوی دینے پر مجبور ہے وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس طرح کا نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوا۔ چنانچہ اسی بنیاد پر بعض فقہا اس کے انعقاد کو مانتے ہیں[3]