آجیویک
آجیویک (ہندی: आजीविक) ناستِک یا عام عقیدے سے ہٹ کر قدیم ہندوستانی فلسفہ تھا۔[2] ۔ یہ قدیم ہندوستانی ہلاکت پسندی کا ایک مکتب فکر بھی رہا ہے۔[3] شواہد سے ثابت کیا گیا ہے کہ اس کی تاسیس پانچویں صدی قبل مسیح میں مکھلی گوشال نے رکھی تھی۔[3] یہ ایک شرمن تحریک تھی۔ یہ ابتدائی بدھ مت اور جین مت سے سیدھے مد مقابل رہا ہے۔[4] آجیویک منظم تارکین الدنیا تھے جو اپنی الگ شناخت والے سماج کی تعمیر کر چکے تھے۔ [5]
یہ سمجھا جاتا ہے کہ آجیویک مکتب فکر کے فلسفے اصلی دستاویز کسی زمانے میں رہے تھے، مگر جدید دور میں یہ عدم دست یاب ہیں اور شاید مفقود ہو چکے ہیں۔ ان کے نظریات کو ہندوستان کے قدیم ادب سے ثانوی ماخذ کے طور پر آجیویکا کے تذکروں سے لیا گیا ہے۔[6] ماہرین اکثر یہ استفسار کرتے ہیں کہ کیا فی الواقع آجیویک فلسفے کو مناسب انداز میں اور مکمل طور پر خلاصے کے طور پر ان ثانوی مآخذ میں شا��ل کیا گیا ہے، کیوں کہ انھیں اس زمرے کے لوگ (جیسے کے بدھ مت اور جین مت کے پیرو کار) لکھ چکے ہیں جو ان سے مقابلہ کر رہے تھے اور آجیویکی فلسفے اور مذہبی مراسم سے متصادم تھے۔ اس لیے یہ ممکن ہے کہ دست یات معلومات میں سے زیادہ تر آجیویکوں سے متعلق کسی نہ کسی درجے تک صحیح نہیں ہے اور اس وجہ آجیویکوں کے کردار کی کوئی بھی تصویر کشی کو غور سے اور تنقیدی نگاہوں سے لی جانی چاہیے۔
آجیویک مکتب فکر کو مکمل تقدیر کی نیتی ("انجام") کے لیے جانا جاتا ہے۔ [3] اس کے پس پردہ یہ سوچ ہے کہ آزاد مرضی جیسی کوئی چیز نہیں ہے اور جو کچھ ہوا ہے، ہو رہا ہے یا ہو کر رہے گا وہ مکمل طور پر مقدر میں لکھا جا چکا ہے اور یہ تخلیق کے اصولوں میں شامل ہے۔[3][6] آجیویک کرما کے فلسفے میں غلط مانتے تھے۔ آجیویک کے الٰہیات میں یہ نظریہ شامل تھا جو ویشیشک مکتب فکر کا بھی ہے۔ اور وہ یہ کہ ہر چیز سالموں سے بنی ہے اور صفات سالموں کے مجموعوں سے ابھرتی ہیں، مگر یہ مجموعے اور ان سالموں کی فطرت قدرتی طاقتوں کی جانب سے پہلے سے طے ہے۔[7] آجیویک ملحد تھے۔[8] وہ لوگ یہ مانتے تھے کہ ہر ذی حیات ایک آتما ہے – جو ہندو مت اور جین مت کا کلیدی عقیدہ ہے۔[9][10][11]
مزید دیکھیے
[ترمیم]حواشی
[ترمیم]- ↑ Marianne Yaldiz, Herbert Härtel, Along the Ancient Silk Routes: Central Asian Art from the West Berlin State Museums ; an Exhibition Lent by the Museum Für Indische Kunst, Staatliche Museen Preussischer Kulturbesitz, Berlin, Metropolitan Museum of Art, 1982, p. 78
- ↑ Natalia Isaeva (1993), Shankara and Indian Philosophy, State University of New York Press, آئی ایس بی این 978-0791412817, pp. 20-23
- ^ ا ب پ ت James Lochtefeld, "Ajivika", The Illustrated Encyclopedia of Hinduism, Vol. 1: A–M, Rosen Publishing. آئی ایس بی این 978-0823931798, page 22
- ↑ Jeffrey D. Long (2009), Jainism: An Introduction, Macmillan, آئی ایس بی این 978-1845116255, page 199
- ↑ Basham 1951، صفحہ 145-146
- ^ ا ب Basham 1951، Chapter 1
- ↑ Basham 1951، صفحہ 262-270
- ↑ Johannes Quack (2014), The Oxford Handbook of Atheism (Editors: Stephen Bullivant, Michael Ruse), Oxford University Press, آئی ایس بی این 978-0199644650, page 654
- ↑ Analayo (2004), Satipaṭṭhāna: The Direct Path to Realization, آئی ایس بی این 978-1899579549, pp. 207-208
- ↑ Basham 1951، صفحہ 240-261
- ↑ Basham 1951، صفحہ 270-273
حوالہ جات
[ترمیم]- A.L. Basham (1951)۔ History and Doctrines of the Ājīvikas (2nd ایڈیشن)۔ Delhi, India: Moltilal Banarsidass (Reprint: 2002)۔ ISBN:81-208-1204-2
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) originally published by Luzac & Company Ltd., London, 1951. - Piotr Balcerowicz (2015)۔ Early Asceticism in India: Ājīvikism and Jainism (1st ایڈیشن)۔ Routledge۔ ص 368۔ ISBN:9781317538530۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-05-23
- K.N. Jayatilleke (1963)۔ Early Buddhist Theory of Knowledge (1st ایڈیشن)۔ London: George Allen & Unwin Ltd.۔ ص 524۔ 2018-12-24 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-05-23
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Anthony K. Warder (1998)۔ "Lokayata, Ajivaka, and Ajnana Philosophy"۔ A Course in Indian Philosophy (2nd ایڈیشن)۔ Delhi: Motilal Banarsidass Publishers۔ ص 32–44۔ ISBN:9788120812444۔ 2019-01-05 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-05-23