مندرجات کا رخ کریں

اسرائیل ناروے تعلقات

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
The printable version is no longer supported and may have rendering errors. Please update your browser bookmarks and please use the default browser print function instead.
اسرائیل ناروے تعلقات
نقشہ مقام Israel اور Norway

اسرائیل

ناروے

اسرائیل ناروے تعلقات سے مراد وہ دو طرفہ تعلقات ہیں جو اسرائیل اور ناروے کے بیچ جاری ہیں۔ ناروے ان ممالک میں شامل ہے جنھوں نے اسرائیل کو اس کے قیام کے وقت سے تسلیم کیا۔ یہ 4 فروری 1949ء کی بات ہے۔ دونوں ممالک نے اسی سال ایک دوسرے کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے تھے۔ اسرائیل کا سفارت خانہ اوسلو میں قائم ہے جو ناروے اور آئس لینڈ کے لیے کام کرتا ہے۔

ناروے کا سفارت خانہ تل ابیب میں ہے اور دو قونصل خانے ایلات اور حیفا میں ہیں۔ 553 اسرائیلی شہری ناروے میں رہتے ہیں اور 260 نارویئی شہری اسرائیل میں قیام پزیر ہیں۔ [1][2]

سیاسی تعلقات

اوسلو میں موجود اسرائیلی سفارت خانہ
اوسلو میں امن کے لیے اسرائیل کے ساتھ (ایم آئی ایف ایف)
ناروے کی وزیر خارجہ اینے میری ایریکسین سوریئیڈ اسرائیلی صدر ریووین ریولین کے ساتھ 2018ء میں۔

1981ء میں مزدور اتحاد کے کچھ ارکان نے ناروے کی مزدور تحریک میں اسرائیل کے احباب (نارویئی زبان: Venner av Israel i Norsk Arbeiderbevegelse) نامی تنظییم قائم کی۔ اس کا مقصد اسرائیلی اور نارویئی مزدور تحریکوں کے تعلقات کو غیر رسمی اور شخصی طور پر تقویت پہنچانا تھا۔ اس کے لیے اسرائیل کو وفود بھیجے گئے اور اسرائیلی ملاقاتیوں کا خیر مقدم کیا گیا۔

اسرائیل نے اوسلو کے لیے ایک اسرائیلی دروز شاعر اور یونیورسٹی لیکچرر نعیم ارادی کو اپنا سفیر منتخب کیا تھا۔ ان کے نائب جارج ڈیک تھے جو حیفا کے ایک عرب مسیحی تھے۔[3] جارج ڈیک سفارت خانے کے سب سے اہم فرائض کو عبوری طور پر انجام دے رہے تھے جب تک کہ نئے سفیر رفائل شولٹز سفیر کے عہدے پر 2014ء کے گرما میں فائز نہیں ہوئے تھے۔

ناروے کی تیسری سیاسی جماعت کے قائد سیو جینسین اسرائیل کی کٹر حامی ہیں اور انھوں نے یہ دعوٰی کیا کہ "انھیں اسرائیل کے حق مدافعتِ خود کا دفاع کرنے سے وہ نہیں چوکیں گی۔" وہ 2008ء کی گرما میں اسرائیل کے شہر سدیروت کا دورہ کر چکی ہیں اور حماس کی جانب سے داغی گئی راکٹ کا بہ ذات خود مشاہدہ کر چکی ہیں۔ ان کے مطابق ان کو خود کو اور دوسروں کو "فضائی حملے سے پناہ گاہ کے لیے دوڑ لگانا پڑا" تھا۔ انھوں نے ناروے کی حکومت کی جانب سے حماس کو تسلیم کیے جانے کی سخت مخالفت کی اور کہا کہ "آپ دہشت گردوں سے مفاہمت نہیں کر سکتے۔ آپ ایسا نہیں کرنا چاہیے۔" [4] 2009ء میں وہ اوسلو میں ایک احتجاجی مظاہرے میں شامل ہوئی تھی جسے "اسرائیل کو جینے دو" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ [5]

ناروے کی پولیس سیکیوریٹی سرویس کو ڈر تھا کہ جینسین کسی حملے کا شکار ہو سکتی ہے اگر چیکہ وہ خود بے پروا تھی۔ [6] حالاں کہ ماہرین سیاسیات نے یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ پروگریس پارٹی اسرائیل کی زبردست حمایت کی وجہ سے وہ زیادہ ووٹروں کو پانے سے کی بجائے کھو دے گی، [7][8] انتخابات سے پتہ چلا کہ ان کی پارٹی کی حمایت میں اضافہ ہوا تھا۔[9]

فوجی تعلقات

ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیلی دفاعی افواج میں کئی نارویئی فوجی شامل ہیں۔ 2007ء میں 24 نارویئی یہودی اسرائیلی فوج میں بھرتی کے بعد کام کرتے ہوئے پائے گئے تھے۔[10]

ستمبر 2010ء میں جرمنی کے اسرائیلی بحریہ کے لیے دو نئے ڈولفن کلاس سب مرین کے تجربے کے بعد ناروے نے ان پر اپنے علاقائی پانی میں تجربہ کرنے پر پابندی لگادی تھی۔ اس کی وجہ یہ خدشہ تھا کہ مستقبل میں ان کا غزہ پٹی کی ناکا بندی کے نفاذ میں استعمال ہو سکتا ہے۔[11]

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. Statistics Norway – Persons with immigrant background by immigration category, country background and sex. 1 جنوری 2009
  2. Number of registered at the embassy. Actual numbers are likely higher.
  3. "Israel Appoints Two Arab Diplomats in Norway"۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-07-14
  4. Bruce Bawer (دسمبر 2008)۔ "A Norwegian Thatcher?"۔ Standpoint۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-07-14
  5. Eivind Fondenes (1 ستمبر 2009)۔ "- Israels krigføring var også terror"۔ TV2۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-07-14
  6. "Politiet frykter angrep på Siv Jensen"۔ VG۔ 8 جنوری 2009۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-07-14
  7. "- Frps Israel-støtte gir velgertap"۔ Dagbladet۔ 8 جنوری 2009۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-07-14
  8. Heidi Schei Lilleås (9 جنوری 2009)۔ "- Siv spiller høyt"۔ Nettavisen۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-07-14
  9. Lars Joakim Skarvøy (13 جنوری 2009)۔ "Dette kan Siv ha tjent på"۔ Nettavisen۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-07-14
  10. "Forsvarets forum » Seksjoner » Aktuelt » Ja, vi elsker Israel"۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-07-14
  11. "Ynetnews – Homepage"۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-09-18