مندرجات کا رخ کریں

"امواج ثقل کا اولین مشاہدہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 53: سطر 53:
==GW150914 نامی واقعہ==
==GW150914 نامی واقعہ==
===واقعہ کا سراغ===
===واقعہ کا سراغ===
14 ستمبر، 2015ء میں لیگو کے دونوں سراغ رسانوں نے (جن میں سے ایک امریکی ریاست واشنگٹن میں ہنفورڈ شہر میں اور دوسرا امریکی ریاست لوزیانا میں لیونگسٹن شہر میں واقع ہے) 9 بج کر 50 منٹ اور 45 سیکنڈ پر کششِ ثقل کی لہر کا اشارہ دریافت کیا – یہ اشارہ غالباً نصف کرہِ جنوبی کے آسمان سے میجیلنی بادلوں کی طرف سے آیا لیکن اس کا منبع ان بادلوں سے بہت زیادہ دور تھا – اس وقت اگرچہ یہ سراغ رساں پوری طرح کام کر رہے تھے لیکن انہوں نے باضابطہ طور پر ریسرچ کا کام شروع نہیں کیا تھا کیونکہ ابھی ان کی جانچ پڑتال کی جا رہی تھی اور ان کے کام کا باقاعدہ آغاز تین دن بعد یعنی 18 ستمبر کو ہونا قرار پایا تھا – چنانچہ اس اشارہ کی صحت کے بارے میں بہت سے سوالات اٹھائے گئے تھے کہ کیا یہ واقعی خلا سے موصول ہونے والا اشارہ ہے یا یہ ایک مصنوعی اشارہ تھا جسے سراغ رساں کی جانچ پڑتال کے لیے استعمال کیا گیا – اس بارے میں حتمی فیصلہ یہ تھا کہ یہ مصنوعی اشارہ نہیں تھا۔
14 ستمبر، 2015ء میں لیگو کے دونوں سراغ رسانوں نے (جن میں سے ایک امریکی ریاست واشنگٹن میں ہنفورڈ شہر میں اور دوسرا امریکی ریاست لوزیانا میں لیونگسٹن شہر میں واقع ہے) 9 بج کر 50 منٹ اور 45 سیکنڈ پر کششِ ثقل کی لہر کا اشارہ دریافت کیا – یہ اشارہ غالباً نصف کرہِ جنوبی کے آسمان سے میجیلنی بادلوں کی طرف سے آیا لیکن اس کا منبع ان بادلوں سے بہت زیادہ دور تھا – اس وقت اگرچہ یہ سراغ رساں پوری طرح کام کر رہے تھے لیکن انہوں نے باضابطہ طور پر ریسرچ کا کام شروع نہیں کیا تھا کیونکہ ابھی ان کی جانچ پڑتال کی جا رہی تھی اور ان کے کام کا باقاعدہ آغاز تین دن بعد یعنی 18 ستمبر کو ہونا قرار پایا تھا – چنانچہ اس اشارہ کی صحت کے بارے میں بہت سے سوالات اٹھائے گئے تھے کہ کیا یہ واقعی خلا سے موصول ہونے والا اشارہ ہے یا یہ ایک مصنوعی اشارہ تھا جسے سراغ رساں کی جانچ پڑتال کے لیے استعمال کیا گیا – اس بارے میں حتمی فیصلہ یہ تھا کہ یہ مصنوعی اشارہ نہیں تھا۔


یہ اشارہ تقریباً 0.2 سیکنڈ سے زیادہ دیر تک موجود رہا اور اس عرصے میں نہ صرف اس کے حیطہ (یعنی قوت) میں اضافہ ہوا بلکہ اس اشارہ کا تعدد 35 ہرٹز سے 150 ہرٹز ہو گیا تھا (اس اشارہ کو پرندوں کے چہچہانے سے تشبیہہ دی گئی ہے اور اس دریافت کے اعلان کے بعد دنیا بھر میں فلکی طبیعیات دان سماجی رابطے کی سائٹ پر اس اشارہ کی نقل اتارتے رہے)

اس اشارے کے موصول ہونے کے تین منٹ کے اندر اندر ایک تیز رفتار الگورتھم استعمال کر کے اس اشارہ کی پہچان کر لی گئی – یہ الگورتھم سراغ رساں سے اکٹھا کی گئی معلومات کا فوراً تجزیہ کر کے مطلوبہ اشارہ موجود ہونے یا نہ ہونے کی خبر دے دیتا ہے – جس پائپ لائن سے اس اشارے کا سراغ لگایا گیا اسے لیگو/ ورگو کی ٹیم میں موجود ایک جماعت نے بنایا جسے coherent waveburst analysis group کا نام دیا گیا – اس خودکار دریافت کے فوراً بعد اس گروپ نے بہت سے برقی خطوط کا تبادلہ کیا جن کی رو سے یہ ثابت ہوا کے اس وقت کوئی مصنوعی اشارہ استعمال نہیں ہو رہا تھا اور سراغ رساں سے حاصل کردہ اطلاعات درست ہیں – اس کے بعد تمام ساتھی اداروں کو یہ خبر کر دی گئی کہ ایک اشارے کا سراغ لگایا جا چکا ہے۔

بعد میں اس اشارہ کا تفصیلی تجزیہ کیا گیا اور 12 ستمبر سے 20 اکتوبر 2015ء تک کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا گیا جس سے یہ ثابت ہوا کہ سائنس دان 99.99994% وثوق سے یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ GW150914 ایک حقیقی آفاقی واقعہ تھا - ان لہروں کو لیونگسٹن کے سراغ رساں میں ہنفورڈ کے سراغ رساں کی نسبت .007 سیکنڈ پہلے دریافت کیا گیا جو کہ ان دو شہروں کے درمیان روشنی کی رفتار سے سفر کرنے کا دورانیہ ہے – یہ لہریں ایک ارب سال سے خلا میں روشنی کی رفتار سے سفر کر رہی تھیں ۔

اس واقعہ کے وقت اتفاق سے اٹلی میں پیسا کے مقام پر نصب ورگو ثقلی امواج سراغ رساں مرمت اور تجدید کے لیے بند تھا – اگر یہ سراغ رساں کام کر رہا ہوتا تو یہ بھی یقیناً اس اشارے کا سراغ لگاتا جس کی وجہ سے اس اشارہ کے منبع کی شناخت آسان ہو جاتی - جرمنی کے شہر ہنوور میں نصب GEO600 نامی سراغ رساں اس وقت کام کر رہا تھا لیکن اس کی حساسیت اتنی نہیں تھی کہ اتنے خفیف اشارے کا سراغ لگا سکے چنانچہ ان دونوں میں سے کوئی سراغ رساں بھی لیگو کے دریافت شدہ اشارے کی تصدیق نہیں کر پایا۔


==اعلان==
==اعلان==

نسخہ بمطابق 06:32، 18 فروری 2016ء

امواج ثقل کا اولین مشاہدہ
لیونگسٹن میں لیگو (دائیں) اور ہنفورڈ (بائیں) سراغ رساں سے کی گئی ثقلی امواج کی پیمائش کا موازنہ نظری تخمینہ جاتی قدروں کے ساتھ
دیگر مراتبGW150914
واقعہ کی قسمgravitational wave event[*]
کھوج
تاریخ14 ستمبر 2015
دورانیہ0.2 سیکنڈ
آلہلیگو
مقام
Redshift0.09±0.03
توانیت
کل توانائی کی پیداوار3.0±0.5 solar masses
مزید دیکھیے
Commons page Related media on Wikimedia Commons

14 ستمبر، 2015ء کو کئے گئے ثقلی امواج کے پہلے مشاہدے کا اعلان لیگو اور ورگو تداخل پیما کے اشتراک سے 11 فروری، 2016ء کو کیا گیا۔[1][2][3] اس سے پہلے ثقلی امواج کا صرف بالواسطہ مشاہدہ ہی ثنائی نظام میں موجود دو نابضوں کے دورانیہ اثر کے ذریعہ کیا جا سکا تھا۔ وہ امواج جن کا سراغ لیگو رصدگاہ[4] نے لگایا ہے، عمومی اضافیت کی رو سے ان ثقلی موجوں کی پیش گوئی سے مطابقت رکھتی ہیں جو اندر آتے ہوئے مرغولہ نما بلیک ہول کے جوڑے کے ملنے سے خارج ہوتی ہیں اور بعد میں بننے والے بلیک ہول کا اشارہ ہوتی ہیں، اس اشارے کا نام GW150914 (یعنی "ثقلی امواج 2015-09-14"، "Gravitational Wave 2015-09-14") رکھا گیا ہے۔ [1][5] یہ سب سے پہلے ثنائی بلیک ہول کے انضمام کا بھی اوّلین مشاہدہ ہے جس میں نہ صرف ثنائی نجمی کمیت کے بلیک ہول کے نظام کے وجود کا مظاہرہ ہوا ہے بلکہ اس کی بھی تصدیق ہوئی کہ اس طرح کا انضمام صرف کائنات کی حالیہ عمر میں ہی وقوع پذیر ہو سکتے ہیں۔

پوری دنیا میں اس اوّلین مشاہدے کی شاندار کامیابی کی خبر پھیلنے کی متعدد وجوہات ہیں۔ اس طرح کی امواج کو ثابت کرنے کے کوششیں پچھلے پچاس برس سے جاری تھیں اور امواج اس قدر ننھی تھیں کہ البرٹ آئن سٹائن کو بذات خود شک تھا کہ ان کا کبھی سراغ لگایا جا سکے گا۔ [6][7] ثقلی امواج 150914 کے قیامت خیز انضمام سے نکلنے والی امواج زمین پر زمان و مکان میں لہروں کی صورت میں پہنچیں جس نے 4 کلومیٹر کے لیگو بازو کی لمبائی کو ایک پروٹون کی چوڑائی کے دس ہزارویں حصّے کے بقدر تبدیل کر دیا، یہ تناسب اتنا ہے جس سے قریبی ستارے کا فاصلہ ایک بال برابر تبدیل ہو سکتا ہے۔[8] اس واقعہ کے مختصر عروج پر پہنچنے کے دوران جو توانائی نکلی وہ بہت شاندار تھی، تین شمسی کمیت ثقلی امواج میں تبدیل ہوئی اور لگ بھگ  3.6×1049  –واٹس کی بلند ترین شرح سے خارج ہوئی- یہ طاقت قابل مشاہدہ کائنات میں موجود تمام ستاروں کی کل خارج ہونے والی روشنی سے کہیں زیادہ ہے۔[1][2][9][10]

یہ مشاہدہ عمومی اضافیت کی آخری غیر ثابت شدہ پیش گوئی کی تصدیق کا نقیب بن کر آیا اور اس کی بڑے پیمانے کے کونیاتی واقعات کے پس منظر میں (جو مضبوط میدانی جانچ کے نام سے معروف ہیں) زمان و مکان کے بگاڑ سے متعلق پیش گوئی کو نہ صرف درست ثابت کر رہا ہے بلکہ ثقلی موج کی فلکیات کے نئے دریچے بھی وا کر رہا ہے، جس کی مدد سے متشدد فلکی طبیعیاتی واقعات کی کھوج کی جا سکے گی جو اب تک ناقابل مشاہدہ تھے، اور اس کے ذریعہ یہ ممکن ہوگا کہ کائنات کی اوّلین تاریخ کا براہ راست مشاہدہ روشنی، ریڈیائی اور دوسری برقی مقناطیسی امواج کے اوپر انحصار کرنے سے پہلے کیا جا سکے۔[1][11][12][13][14]

ثقلی امواج

ویڈیو نقل زمان و مکان کے خم اور ثقلی امواج کو حتمی چکر کھاتے ہوئے انضمام کے دوران بنتا ہوا اورGW150914ثنائی بلیک ہول نظام سے آتے ہوئے اشارے کو دکھاتی ہے۔


ثقلی امواج کی سب سے پہلے پیش گوئی 1916ء [15][16]میں البرٹ آئن سٹائن نے اپنے عمومی نظریہ اضافیت کی بنیاد پر کی تھی۔[17] یہ نظریہ ثقل کو زمان و مکان میں ہونے والے بگاڑ کے طور پر بیان کرتا ہے، لہذا آئن سٹائن نے یہ بھی پیش گوئی کی کہ کائنات میں رونما ہونے والے واقعات زمان و مکان میں 'لہریں' - مکان میں بذات خود بگاڑ - پیدا کریں گے یہ لہریں باہر کی جانب اتنی ننھی مقدار میں پھیلیں گی کہ اس وقت موجود ٹیکنالوجی کی بدولت ان کا سراغ لگانا لگ بھگ ناممکن ہی ہوگا۔ یہ بھی قیاس کیا گیا کہ مدار میں چکر لگانے والے اجسام اس وجہ سے توانائی کو ضائع کریں گے (جو قانون بقائے توانائی کا نتیجہ ہوگا)، کیونکہ کچھ توانائی ثقلی امواج کی صورت میں نکل جائے گی اگرچہ یہ سب سے زیادہ متشدد اور بڑے پیمانے کی صورت میں بھی اس قدر چھوٹی اور ننھی ہوگی کہ اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہوگا۔

ایک صورت جہاں پر ثقلی امواج کے موجود ہونے کا حساب لگایا گیا ہے وہ دو دبے ہوئے اجسام مثلاً نیوٹران ستارے یا بلیک ہولز کے انضمام سے پہلے کا لمحہ ہے۔ دسیوں لاکھوں برس کے دوران ثنائی نیوٹران ستارے اور ثنائی بلیک ہولز اپنی توانائی کو زیادہ تر ثقلی امواج کی صورت میں اور ایک دوسرے کے قریب چکر لگاتے ہوئے کھو دیں گے۔ اس عمل کے ختم ہونے کے عین وقت پر دونوں جسم اپنی زیادہ سے زیادہ سمتی رفتار کو حاصل کر لیں گے اور ان کی کمیت کی خاصی مقدار انضمام کے آخری سیکنڈ کے کچھ حصّے میں ثقلی امواج میں تبدیل ہو جائے گی۔ اس سے وہ ثقلی امواج پیدا ہوں گی جو سائنسی طور پر سراغ لگانے کی پہنچ میں ہوں گی۔[1][11][2]

مشاہدات

GW150914 ثنائی بلیک ہول نظام کی کمپیوٹر سے کی جانے والی مصنوعی نقل جس میں قریبی شاہد اس کے چکر لگاتے ہوئے انضمام اور اشارہ دینے کے عمل کو آخری لمحات میں دیکھ رہا ہے۔ بلیک ہول کے پیچھے موجود ستارے کا میدان کافی زیادہ بگڑا ہوا ہے اور شدید ثقلی عدسے کی وجہ سے یہ گھومتا اور حرکت کرتا ہوا لگ رہا ہے کیونکہ مکان و زمان بذات خود گھومتے ہوئے بلیک ہول کے گرد بگڑ اور کھینچ رہا ہے۔[18]

مشاہدات کو یا تو بالواسطہ (موجوں کے اثر کا مشاہدہ کرکے اور ان کے قیاسی اثر سے استخراج کرکے) یا بلاواسطہ (موجوں کا خود سے سراغ اور ان کا مشاہدہ کرکے)کیا جا سکتا ہے۔

بالواسطہ مشاہدات

ثقلی امواج کا پہلا بالواسطہ مشاہدہ 1974ء میں دہرے نیوٹران ستارے کے نظام PSR B1913+16 میں دیکھا گیا جس میں ایک ستارہ نابض تھا جو انتہائی صحت کے ساتھ ریڈیائی تعدد کے جھماکے خارج کر رہا تھا۔ رسل ہسل اور جوزف ٹیلر جنہوں نے ان ستاروں کو دریافت کیا تھا انھوں نے یہ بھی بتایا کہ وقت گزرنے کے ساتھ جھماکوں کی تعدد ارتعاش چھوٹی ہوئی ہیں، اور یہ کہ ستارے بتدریج ایک دوسرے کی طرف چکر کھا کر توانائی کو کھو رہے ہیں اور یہ بات ثقلی امواج کی توانائی کو خارج کرنے کی پیش گوئی سے بہت قریبی مطابقت رکھتی ہے۔ اپنے اس کام میں ہسل اور ٹیلر نے 1993ء میں طبیعیات کا نوبل انعام حاصل کیا۔ اس نابض اور کثیر نظاموں میں دوسروں کے مزید مشاہدات بھی عمومی اضافیت سے مطابقت رکھتے ہیں۔

براہ راست مشاہدات (لیگو)

لیگو ہنفورڈ رصدگاہ کا شمالی پایہ

براہ راست مشاہدہ اس انتہائی صغیر اثر کی وجہ سے کافی دہائیوں سے مسئلہ بنا ہوا تھا اس کا سراغ لگانے اور زمین پر ہر جگہ موجود پس منظر کی تھرتھراہٹ سے الگ کرنے کی ضرورت تھی۔ 1960ء کے عشرے میں ایک تیکنیک کے استعمال کی تجویز دی گئی جو تداخل پیمائی کہلاتی ہے اور بالآخر فنیات میں ہونے والی ترقی اس قدر آگے بڑھ گئی کہ اس کا استعمال کرنا ممکن ہو سکا۔

اس طریقہ کار میں ایک لیزر کی کرن کو توڑا جاتا ہے اور اس کے دونوں ٹکڑوں کو مختلف راستوں سے گزار کر واپس ملا دیا جاتا ہے۔ دونوں الگ ہوئی کرنوں کو دوبارہ ملنے کی جگہ پر پہنچنے میں فاصلے یا وقت میں کسی قسم کے فرق کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس کو 'دھڑکنا' کہتے ہیں اور یہ تیکنیک ننھے سے فاصلاتی فرق یا وقت کی پیمائش کو معلوم کرنے کے لئے انتہائی درجہ حساس ہوتی ہے۔ نظری طور پر ایک تداخل پیما 4 کلومیٹر طویل بازو کے ساتھ اس قابل ہوگا کہ مکان و زمان میں ہونے والی تبدیلی - ایک جوہر کے حجم کے کچھ حصّے کے برابر فرق - کو زمین پر کہیں سے آتی ہوئی ثقلی موج کو ظاہر کر سکے، اگرچہ یہ اثر کسی بھی شخص اور سیارے پر موجود کسی بھی آلے کے لئے غیر محسوس ہوگا (بجز دوسرے اسی حجم کے تداخل پیما کے جیسا کہ ورگو، جیو 600 اور منصوبہ بند انڈیگو سراغ رساں ہیں)۔ عملی طور پر کم از کم دو تداخل پیماؤں کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ کسی بھی ثقلی موج کا سراغ ان دونوں میں لگ سکتا ہے تاہم دوسرے کسی قسم کے شور موجود نہیں ہونے چاہئیں تاکہ تلاش کئے جانے والے اشارے کو دوسری چیزوں سے الگ کر دیا جائے۔ یہ منصوبہ بالآخر 1992ء میں "لیگو" ("Laser Interferometer Gravitational-Wave Observatory"- لیزر تداخل پیما ثقلی موج رصدگاہ) کے نام سے قائم ہو گیا۔ اصل آلات کو 2010ء اور 2015ء میں تبدیل کر دیا گیا جس سے ان کی اصل حساسیت تین گنا بڑھ گئی۔

لیگو دو ثقلی موج رصدگاہ میں ہم آہنگی کے ساتھ چلتا ہے: لیگو لیونگسٹون رصدگاہ (30°33′46.42″N 90°46′27.27″W) لیونگسٹون، لوزیانا میں واقع ہے، اور لیگو ہنفورڈ رصدگاہ، ڈی او ای ہنفورڈ (46°27′18.52″N 119°24′27.56″W) نزد رچ لینڈ، واشنگٹن میں واقع ہے۔ یہ جگہیں ایک دوسرے سے 3,002 کلومیٹر (1,865 میل) دور ہیں۔ رصدگاہیں اپنے تداخل پیماؤں سے حاصل کرنے والے اشاروں کا موازنہ کرتی ہیں۔ لیگو کے 2002ء سے لے کر 2010ء کے کام کرنے کے دوران کوئی بھی ایسا اہم شماریاتی واقعات کا سراغ نہیں لگا جس کی تصدیق ثقلی امواج کے طور پر کی جا سکتی۔ کچھ برسوں تک بند رہنے کے بعد جب اس کے سراغ رسانوں کو کافی بہتر 'جدید لیگو' کے نسخوں سے بدل دیا گیا تو اس نے دوبارہ کام کرنا شروع کیا۔ فروری، 2015ء میں دونوں جدید سراغ رساں انجینئرنگ طبیعت میں لائے گئے جبکہ رسمی سائنسی مشاہدات کی شروعات 18 ستمبر،2015ء سے ہوئیں۔

لیگو کے مشاہدے کی ابتداء سے لے کر آخر تک نقلی ثقلی موجوں کے کافی سارے اشارے یعنی "اندھے دخول" ڈالے گئے تاکہ محققین اس طرح کے اشاروں کی شناخت کرنے کے قابل ہو سکیں۔ اندھے دخول کی تاثیر کی حفاظت کرنے کے لئے صرف چار لیگو کے سائنس دان جانتے تھے کہ اس طرح کے دخول واقع ہوں گے اور یہ اطلاع صرف اس وقت ظاہر کی جاتی تھی جب اشارے کو اچھی طرح سے محققین جانچ لیتے تھے۔ بہرحال اس طرح کی کوئی جانچ اس وقت نہیں کی گئی جب ستمبر، 2015ء میں GW150914 واقع ہوا۔

GW150914 نامی واقعہ

واقعہ کا سراغ

14 ستمبر، 2015ء میں لیگو کے دونوں سراغ رسانوں نے (جن میں سے ایک امریکی ریاست واشنگٹن میں ہنفورڈ شہر میں اور دوسرا امریکی ریاست لوزیانا میں لیونگسٹن شہر میں واقع ہے) 9 بج کر 50 منٹ اور 45 سیکنڈ پر کششِ ثقل کی لہر کا اشارہ دریافت کیا – یہ اشارہ غالباً نصف کرہِ جنوبی کے آسمان سے میجیلنی بادلوں کی طرف سے آیا لیکن اس کا منبع ان بادلوں سے بہت زیادہ دور تھا – اس وقت اگرچہ یہ سراغ رساں پوری طرح کام کر رہے تھے لیکن انہوں نے باضابطہ طور پر ریسرچ کا کام شروع نہیں کیا تھا کیونکہ ابھی ان کی جانچ پڑتال کی جا رہی تھی اور ان کے کام کا باقاعدہ آغاز تین دن بعد یعنی 18 ستمبر کو ہونا قرار پایا تھا – چنانچہ اس اشارہ کی صحت کے بارے میں بہت سے سوالات اٹھائے گئے تھے کہ کیا یہ واقعی خلا سے موصول ہونے والا اشارہ ہے یا یہ ایک مصنوعی اشارہ تھا جسے سراغ رساں کی جانچ پڑتال کے لیے استعمال کیا گیا – اس بارے میں حتمی فیصلہ یہ تھا کہ یہ مصنوعی اشارہ نہیں تھا۔

یہ اشارہ تقریباً 0.2 سیکنڈ سے زیادہ دیر تک موجود رہا اور اس عرصے میں نہ صرف اس کے حیطہ (یعنی قوت) میں اضافہ ہوا بلکہ اس اشارہ کا تعدد 35 ہرٹز سے 150 ہرٹز ہو گیا تھا (اس اشارہ کو پرندوں کے چہچہانے سے تشبیہہ دی گئی ہے اور اس دریافت کے اعلان کے بعد دنیا بھر میں فلکی طبیعیات دان سماجی رابطے کی سائٹ پر اس اشارہ کی نقل اتارتے رہے)

اس اشارے کے موصول ہونے کے تین منٹ کے اندر اندر ایک تیز رفتار الگورتھم استعمال کر کے اس اشارہ کی پہچان کر لی گئی – یہ الگورتھم سراغ رساں سے اکٹھا کی گئی معلومات کا فوراً تجزیہ کر کے مطلوبہ اشارہ موجود ہونے یا نہ ہونے کی خبر دے دیتا ہے – جس پائپ لائن سے اس اشارے کا سراغ لگایا گیا اسے لیگو/ ورگو کی ٹیم میں موجود ایک جماعت نے بنایا جسے coherent waveburst analysis group کا نام دیا گیا – اس خودکار دریافت کے فوراً بعد اس گروپ نے بہت سے برقی خطوط کا تبادلہ کیا جن کی رو سے یہ ثابت ہوا کے اس وقت کوئی مصنوعی اشارہ استعمال نہیں ہو رہا تھا اور سراغ رساں سے حاصل کردہ اطلاعات درست ہیں – اس کے بعد تمام ساتھی اداروں کو یہ خبر کر دی گئی کہ ایک اشارے کا سراغ لگایا جا چکا ہے۔

بعد میں اس اشارہ کا تفصیلی تجزیہ کیا گیا اور 12 ستمبر سے 20 اکتوبر 2015ء تک کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا گیا جس سے یہ ثابت ہوا کہ سائنس دان 99.99994% وثوق سے یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ GW150914 ایک حقیقی آفاقی واقعہ تھا - ان لہروں کو لیونگسٹن کے سراغ رساں میں ہنفورڈ کے سراغ رساں کی نسبت .007 سیکنڈ پہلے دریافت کیا گیا جو کہ ان دو شہروں کے درمیان روشنی کی رفتار سے سفر کرنے کا دورانیہ ہے – یہ لہریں ایک ارب سال سے خلا میں روشنی کی رفتار سے سفر کر رہی تھیں ۔

اس واقعہ کے وقت اتفاق سے اٹلی میں پیسا کے مقام پر نصب ورگو ثقلی امواج سراغ رساں مرمت اور تجدید کے لیے بند تھا – اگر یہ سراغ رساں کام کر رہا ہوتا تو یہ بھی یقیناً اس اشارے کا سراغ لگاتا جس کی وجہ سے اس اشارہ کے منبع کی شناخت آسان ہو جاتی - جرمنی کے شہر ہنوور میں نصب GEO600 نامی سراغ رساں اس وقت کام کر رہا تھا لیکن اس کی حساسیت اتنی نہیں تھی کہ اتنے خفیف اشارے کا سراغ لگا سکے چنانچہ ان دونوں میں سے کوئی سراغ رساں بھی لیگو کے دریافت شدہ اشارے کی تصدیق نہیں کر پایا۔

اعلان

GW150914 کے اعلان کی دستاویز

اس سراغ کا اعلان 11 فروری، 2016ء کو واشنگٹن ڈی سی میں ہونے والی نیوز کانفرنس میں لیگو کے عاملہ ناظم ڈیوڈ ریٹزی نے لیگو کے گبریلا گونزالیز، رینر ویس اور کپ تھورن اور این ایس ایف کے منتظم فرانس اے کورڈووا پر مشتمل وفد کے ساتھ کیا۔

ابتدائی اعلان ایک مقالہ کی صورت میں نیوز کانفرنس کے دوران فزیکل ریویو لیٹرز میں شایع ہوا اس کے ساتھ ہی مزید کچھ مقالاجات یا تو اس کے تھوڑی دیر بعد شایع ہوئے یا فوری طور پر پہلے سے تیار شکل میں دستیاب تھے۔

مضمرات

برائے فلکی طبیعیات اور علم کائنات

مستقبل میں ثنائی انضمامی واقعات کے سراغ لگانے کی امیدیں

جدید لیگو کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ اپنی اگلی مشاہداتی مہم کے دوران وہ GW150914 کی طرح کے مزید پانچ بلیک ہول کے انضمام کا سراغ لگائے گی، اس طرح سے وہ ہر سال 40 ثنائی انضمام کا سراغ لگا سکے گی، یہ ان نامعلوم مزید اجنبی ثقلی امواج کے ماخذ کے علاوہ ہوگا جس میں سے کچھ کے بارے میں تو سر دست موجود نظریے کے ذریعہ پیش گوئی بھی نہیں کی جا سکتی۔

منصوبہ بند بہتری سے امید کی جا رہی ہے کہ اشاروں اور شور کی نسبت کی شرح دگنی ہو جائے گی اس طرح سے خلاء کی وسعت میں اضافہ ہوگا جس میں GW150914 جیسے واقعات کا سراغ دس گنا زیادہ بہتر طور پر لگایا جا سکے گا۔ مزید براں جدید ورگو، کے اے جی آر اے، اور ہندوستان میں ممکنہ تیسرا لیگو سراغ رساں اس جال میں اضافہ کرے گا اور کافی حد تک مقام کی تعمیر نو اور ماخذات کے عدد صحیح کے تخمینہ جات کو بہتر کرے گا۔

ترقی یافتہ لیزر تداخل پیما خلائی اینٹینا (ای لیزا - Evolved Laser Interferometer Space Antenna) ثقلی امواج کا سراغ لگانے کے لئے خلائی رصدگاہ مہم بنانے کی مجوزہ تجویز ہے۔ ای لیزا کی تجویز کردہ حساسیت کی حد کے ساتھ GW150914 کی طرح کے ثنائی انضمام کا سراغ ان کے ضم ہونے سے 1,000 برس پہلے تک لگایا جا سکتا ہے جس سے اس رصدگاہ کو اس جماعت کے ماخذات مل جائیں گے جو پہلے نامعلوم تھے بشرطیکہ وہ 10 میگا پارسیک کے اندر موجود ہوں۔ لیزا خضر راہ، ای لیزا کی تیکنیکی پیش رفت مہم کا آغاز دسمبر 2015ء میں کیا گیا تھا۔

نجمی ارتقاء اور فلکی طبیعیات کی استعداد

انضمام سے پہلے دونوں بلیک ہول کی کمیت نجمی ارتقاء کے بارے میں معلومات فراہم کرے گی۔ دونوں بلیک ہول پچھلے دریافت کردہ نجمی کمیت کے بلیک ہول سے کافی زیادہ ضخیم ہیں اس بارے میں استخراج ایکس رے سے کئے جانے والے ثنائی مشاہدات سے کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اپنے جدی ستاروں سے نکلنے والی نجمی ہوائیں لازمی طور پر کمزور ہوں گی اور لہذا دھاتی پن (ہائیڈروجن اور ہیلیئم سے بھاری کیمیائی عناصر کی کمیت کا حصّہ) لازمی طور پر شمسی قدر سے لگ بھگ نصف ہوگا۔

یہ حقیقت کہ انضمام سے پہلے کے بلیک ہول ثنائی نظام میں موجود ہوتے ہیں اور نظام اس قدر دبا ہوا ہوتا ہے کہ کائنات کی عمر کے دوران ہی انضمام واقع ہوسکتا ہے، ثنائی نظام کا ارتقاء یا سرگرم تخلیقی منظرنامے میں رکاوٹ ڈالتی ہے جس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ آیا کس طرح سے ثنائی بلیک ہول بنے ہیں۔ بلیک ہول کی اچھی خاصی تعداد لازمی طور پر مولودی جھٹکے (دیوہیکل بلیک ہول کی سپرنووا کے دوران قلب منہدم ہو کر بنتے وقت سمتی رفتار) لیتی ہے، ورنہ ثنائی جس میں بلیک ہول بنانے والے سپرنووا وقوع پذیر ہو رہے ہیں منتشر ہو سکتے ہیں، اور آفاقی جھرمٹ میں موجود بلیک ہولز کی جھرمٹ سے فرار کی سمتی رفتار بڑھ جائے گی اور وہ متحرک تعاملات کے ذریعہ ثنائی بنانے سے پہلے ہی نکال دیئے جائیں گے۔ ضخیم مورث ستاروں میں عمومی ملفوف بلند گھماؤ کے مراحل سے گزر کر باقی رہنا لازمی ہے۔ تازہ ترین بلیک ہول نمونوں کی اکثریت ان اضافی رکاوٹوں کو پورا کرتی ہیں۔

انضمامی واقعے کی دریافت بذات خود سے اس طرح کے واقعات کی نچلی حد کی شرح کو بڑھاتی ہے، اور کچھ نظریاتی نمونوں کو رد کرتی ہے جو 1 Gpc−3yr−1 (فی برس ایک مکعب گیگا پارسیک میں ایک واقعہ) سے بھی بہت ہی کم شرح کی پیش گوئی کرتے ہیں۔ تجزیے سے GW150914 کی طرح کے واقعات میں پچھلی اوپری حد کی شرح میں ~140 Gpc−3yr−1 سے لے کر ~140 Gpc−3yr−1 کی کمی ہوئی ہے۔

مستقبل کے کائناتی مشاہدات پر اثرات

یہ مشاہدہ ثقلی موجی فلکیات کے ایک نئے دور کی ابتداء کو شروع کرنے والا پیام بر ہے۔ اس سراغ لگانے سے پہلے فلکی طبیعیات دان اور ماہرین تکوینیات برقی مقناطیسی اشعاع (بشمول بصری روشنی، ایکس ریز، خرد امواج، ریڈیائی امواج) اور ذرّات جیسی ہستیوں (کائناتی اشعاع، نجمی ہواؤں ، نیوٹرینو وغیرہ)پر انحصار کرکے مشاہدات کرنے کے قابل تھے۔ ان کی ایک حد تھی - روشنی اور دوسری اشعاع کئی قسم کے اجسام یا ہستیوں سے خارج نہیں ہو سکتی اور دوسری چیزوں کے پیچھے مخفی یا چھپ سکتی ہیں۔ کہکشاؤں اور سحابیوں جیسے اجسام ان کو اپنی پیدا کی ہوئی روشنی یا پیچھے کی طرف سے آنے والی روشنی کے ساتھ جذب، دوبارہ خارج، یا تبدیل بھی کر سکتے ہیں، اور ٹھوس ستاروں یا اجنبی ستاروں میں ایسا مادّہ شامل ہو سکتا ہے جو تاریک یا ریڈیائی طور پر خاموش ہو، نتیجتاً ہمارے پاس ثقلی تعاملات کے علاوہ ان کی موجودگی کے کم ثبوت ہوتے ہیں۔

اس "تاریک کائنات" کا پیمانہ کافی عظیم ہے - مثال کے طور پر آج بھی سمجھا جاتا ہے کہ کائنات میں موجود کل مادّے کا لگ بھگ پانچ بٹا چھ (83 فیصد) "تاریک مادّہ" ہے، اور اس مادّے کا ٹھیک سے مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا یا فی الوقت اس کی ماہیت کی شناخت نہیں ہو سکتی، کیونکہ یہ برقی مقناطیسی اشعاع سے تعامل نہیں کرتا نہ ہی کوئی دوسرے معلوم ذرّات بناتا ہے۔ ماہرین تکوینیات ان کے وجود کو صرف ایک ہی طرح سے جان سکتے ہیں اور وہ ہے ثقلی تعاملات - آسان زبان میں زیادہ تر کہکشاؤں میں بہت کم بصری مادّہ موجود ہے جو ان کو آپس میں باندھ کر رکھ سکے، لہٰذا وہاں پر لازمی طور پر بڑی مقدار میں "تاریک" مادّہ ہونا چاہئے جس کا ہم سراغ لگانے سے قاصر ہیں۔

جیسا کہ موجودہ کائنات ہے اس کے برعکس پوری کائنات اپنے ابتدائی دور میں غیر شفاف تھی کیونکہ ایک ایسا دور بھی تھا جب کائنات اس قدر توانا تھی کہ وہ اب جیسی "شفاف" نہیں ہو سکتی تھی۔

ثقلی امواج کا سراغ لگانے کی قابلیت بذات خود سے مشاہدے میں ایک نئی جہت کا اضافہ کرے گی۔ روشنی کے برعکس ثقل نہ صرف نسبتاً مخفی چیزوں سے گزر سکتی ہے بلکہ طویل وقت اور فاصلوں کا سفر بھی کر سکتی ہے، اور وہ مادّہ جو روشنی نہیں خارج کرتا وہ بھی ثقلی امواج پیدا کر سکتا ہے۔ ابتدائی کائنات کی غیر شفافیت اس وقت سے ثقلی امواج پر اثر انداز ہوتی نظر نہیں آتی (اگر وہ سراغ لگانے کے قابل ہیں) جس سے مشاہدین کے لئے اس ابتدائی وقت سے پہلے کی کائنات کا مشاہدہ کرنے کا دریچہ کھلتا ہے جو ہم فی الوقت دیکھ سکتے ہیں۔ وہ کائناتی واقعات جو کسی قسم کی روشنی یا دوسری مقناطیسی اشعاع پیدا نہیں کر سکتے یا جہاں پر روشنی میں بہت زیادہ بگاڑ ہو - جس کی ایک مثال ضم ہوتے ہوئے بلیک ہول ہیں، ان میں بھی ثقلی امواج پیدا ہو سکتی ہیں۔ لہٰذا ثقلی فلکیات کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ یہ نہ صرف ان متشدد فلکی طبیعیاتی واقعات کی کھوج کرنے کی اجازت دیں گی جو ابھی تک ناقابل مشاہدہ ہیں بلکہ تاریک کائنات کا براہ راست اور روشنی، ریڈیائی اور دوسرے برقی مقناطیسی اشعاع سے مشاہدہ کرنے سے پہلے کی کائنات کی اولین تاریخ کا مشاہدہ ممکن ہو سکے گا۔

برائے بنیادی طبیعیات

عمومی اضافیت کی جانچ

مابعد بلیک ہول کے انضمام کی قیاسی بنیادی خصوصیات، کمیت اور گھماؤ ان دونوں بلیک ہول کے قبل از وقت انضمام سے عمومی اضافیت کی پیش گوئی سے مطابقت رکھتی ہیں۔ عمومی اضافیت کا بہت ہی مضبوط میدان میں یہ پہلا امتحان ہے۔ عمومی اضافیت کی پیش گوئی کے خلاف کوئی بھی ثبوت نہیں مل سکا۔

اس اشارے میں مزید عمومی اضافی تعاملات جیسا کہ ثقلی موج اور خم دار زمان و مکان پس منظر کے درمیان تعاملات میں پیدا ہونے والا دنبالہ کی جانچ کرنے کا موقع محدود تھا۔ اگرچہ یہ اعتدالی طور پر کافی مضبوط اشارہ تھا تاہم یہ اس سے کہیں زیادہ چھوٹا تھا جو ثنائی نابض نظام پیدا کرتے ہیں۔ یہ امید کی جاتی ہے کہ مستقبل میں مزید حساس سراغ رسانوں کی مدد سے نہ صرف مضبوط اشاروں کو ثقلی امواج کے نازک تعاملات کی تلاش کے لئے استعمال کیا جا سکے گا بلکہ عمومی اضافیت سے روگردانی کرنے والی رکاوٹوں پر بھی قابو پا لیا جائے گا۔

قوت ثقل اور اس کے کائنات کے دوسرے بنیادی اجزاء سے تعلق کی بہتر تفہیم

فی الوقت قوت ثقل کو عمومی اضافیت جیسے نظریوں سے سمجھا جاتا ہے یہ طبیعی کائنات کے دوسرے گوشوں سے الگ ہے جس کو عام طور پر معیاری نمونے (جس کی بنیاد کوانٹم میدان پر ہے) کے استعمال سے سمجھا جاتا ہے۔ ثقلی امواج کے مشاہدات ہو سکتا ہے کہ اس قابل ہوں کہ بتا سکیں کہ آیا کس طرح سے کائنات سے متعلق ہماری تفہیم میں یہ بنیادی خلاء پر ہو سکتا ہے۔

گریویٹون کی ممکنہ کمیت پر سخت حد

گریویٹون ایک قیاسی بنیادی ذرّہ ہے جس کا تعلق ثقل سے ہے اور یہ بغیر کمیت کا ہوگا کیونکہ لگتا ہے کہ گریویٹون کی لامتناہی حد ہوگی (جتنا زیادہ ضخیم مقیاسی بوسون ہوتا ہے اس سے نسبت رکھنے والی قوّت کی حد اتنی ہی کم ہوتی ہے، لہٰذا روشنی کی لامتناہی حد کی وجہ فوٹون کا بغیر کمیت کے ہونا ہے، فرض کریں کہ حقیقت میں مستقبل کی قوت ثقل کے کوانٹم کے نظریئے کا گریویٹون مقیاسی بوسون ہے تو ثقل کی لامتناہی حد کا مطلب یہ ہوگا کہ ایک قیاسی گریویٹون کے بارے میں بھی یہی امید کی جا سکتی ہے کہ وہ بغیر کمیت کا ہی ہوگا)۔ اندرونی چکر کے مشاہدے نےگریویٹون کی کمیت کی اوپری حد کو ہلکا سا بہتر (نیچے کی طرف) 2.16×10−58 کلوگرام کیا ہے۔

مزید دیکھئے 

حوالہ جات 

  1. ^ ا ب پ ت ٹ Benjamin P. Abbott؛ دیگر (LIGO Scientific Collaboration and Virgo Collaboration) (2016)۔ "Observation of Gravitational Waves from a Binary Black Hole Merger"۔ Phys. Rev. Lett.۔ ج 116 شمارہ 6: 061102۔ arXiv:1602.03837۔ DOI:10.1103/PhysRevLett.116.061102 {{حوالہ رسالہ}}: الوسيط غير المعروف |lay-summary= تم تجاهله (معاونت)
  2. ^ ا ب پ Davide Castelvecchi؛ Alexandra Witze (11 فروری 2016)۔ "Einstein's gravitational waves found at last"۔ Nature News۔ DOI:10.1038/nature.2016.19361۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-02-11
  3. The Editorial Board (16 فروری 2016)۔ "The Chirp Heard Across the Universe"۔ New York Times۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-02-16
  4. "Einstein's gravitational waves 'seen' from black holes".
  5. Robert Naeye (11 فروری 2016)۔ "Gravitational Wave Detection Heralds New Era of Science"۔ Sky and Telescope۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-02-11
  6. Abraham Pais (1982)، "The New Dynamics, section 15d: Gravitational Waves"، Subtle is the Lord: The science and the life of Albert Einstein، Oxford University Press، ص 278-281، ISBN:978-0-19-853907-0
  7. "The long road towards evidence"۔ Alexander Blum, Roberto Lalli and Jürgen Renn۔ Max Planck Society۔ 12 فروری 2016۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-02-15
  8. LIGO press conference 11 February 2016
  9. W. Harwood (11 فروری 2016)۔ "Einstein was right: Scientists detect gravitational waves in breakthrough"۔ CBS News۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-02-12
  10. Nadia Drake (11 فروری 2016)۔ "Found! Gravitational Waves, or a Wrinkle in Spacetime"۔ National Geographic News۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-02-12
  11. ^ ا ب Benjamin P. Abbott؛ دیگر (LIGO Scientific Collaboration and Virgo Collaboration) (11 فروری 2016)۔ "Tests of general relativity with GW150914"۔ LIGO۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-02-12
  12. Benjamin P. Abbott؛ دیگر (LIGO Scientific Collaboration and Virgo Collaboration) (20 فروری 2016)۔ "Astrophysical implications of the binary black-hole merger GW150914"۔ The Astrophysical Journal۔ The Astrophysical Journal۔ ج 818 شمارہ 2: L22۔ DOI:10.3847/2041-8205/818/2/L22۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-02-11{{حوالہ رسالہ}}: اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: غیر نشان زد مفت ڈی او آئی (link)
  13. CNN quoting Prof. Martin Hendry (University of Glasgow, LIGO)) - "Detecting gravitational waves will help us to probe the most extreme corners of the cosmos -- the event horizon of a black hole, the innermost heart of a supernova, the internal structure of a neutron star: regions that are completely inaccessible to electromagnetic telescopes."
  14. [1] - "With gravitational waves, we do expect eventually to see the Big Bang itself"
  15. Einstein, A (جون 1916)۔ "Näherungsweise Integration der Feldgleichungen der Gravitation"۔ Sitzungsberichte der Königlich Preussischen Akademie der Wissenschaften Berlin۔ part 1: 688–696
  16. Einstein, A (1918)۔ "Über Gravitationswellen"۔ Sitzungsberichte der Königlich Preussischen Akademie der Wissenschaften Berlin۔ part 1: 154–167
  17. Albert Einstein (1916)، "Die Grundlage der allgemeinen Relativitätstheorie"، Annalen der Physik، ج 49: 769–822، Bibcode:1916AnP...354..769E، DOI:10.1002/andp.19163540702، 2006-08-29 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا، اخذ شدہ بتاریخ 2016-02-14
  18. SXS (Simulating eXtreme Spacetimes) project