عبداللہ درخواستی
اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
عبداللہ درخواستی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
تاریخ پیدائش | سنہ 1887ء |
تاریخ وفات | سنہ 1994ء (106–107 سال) |
شہریت | پاکستان برطانوی ہند |
اولاد | فداء الرحمان درخواستی ، خلیل الرحمن درخواستی ، فضل الرحمن درخواستی ، مطیع الرحمن درخواستی |
عملی زندگی | |
تلمیذ خاص | سيّد شير على شاه ، مولانا الله وسايا ، مفتی جمیل خان |
پیشہ | اکیڈمک |
درستی - ترمیم |
ولادت
ترمیمآپ محرم الحرام 1324ھ بمطابق 1906ء بروز جمعرات کو درخواست ضلع رحیم یار خان میں پیدا ہوئے۔
تعلیم
ترمیم11 سال کی عمر میں اپنے والد سے حفظ کیا۔ عربی اور فارسی کی تعلیم عالم دین مولانا عبد الغفور حاجی پوری اور مولانا محمد صدیق حاجی پوری سے حاصل کی۔ پھر 18 سال کی عمر میں دورہ حدیث بھی مولانا صدیق سے ہی پڑھ کر سند فراغت حاصل کی۔
تدریس
ترمیمآپ نے درخواست میں مدرسہ مخزن العلوم قائم کر کے تدریس کا آغاز کیا اور 15 سال تک پڑھاتے رہے۔ دورہ حدیث کے علاوہ آپ سال شعبان و رمضان میں دورہ تفسیر پڑھاتے رہے۔
بیعت و اجازت
ترمیمآپ خلیفہ غلام محمد دین پوری سے بیعت ہوئے اور انہی سے خلافت حاصل کی۔
تصانیف
ترمیمآُ نے کئی رسالے لکھے جن میں مقدمۃ القرآن کے علاوہ کئی تقریریں بھی شائع کرائیں۔
اہم کارنامے
ترمیمآپ نے پاکستانی سیاست میں بہت کردار ادا کیا اور عرصہ دراز تک جمیعت علاء اسلام کے سرپرست اور قائد رہے۔
مشہور روایت کے مطابق آپ کو چالیس ہزار احادیث مع سند حدیث ازبر تھیں جنہیں کبھی کبھی بڑے ولوے اور شوق کے ساتھ سنایا کرتے تھے۔
وفات
ترمیم19 ربیع الاول 1415ھ بمطابق 25 اگست 1994ء کو خالق حقیقی سے جاملے
حافظ الحدیث شیخ الاسلام حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ نے کم و بیش پون صدی تک پاکستان میں امت مسلمہ اور خاص طور پر علما کرام اور دینی کارکنوں کی علمی و روحانی اور دینی و فکری راہنمائی کی ہے۔ لاکھوں لوگوں نے ان سے مختلف حوالوں سے استفادہ کیا ہے جو بلاشبہ وطن عزیز کی علمی و دینی جدوجہد کی تاریخ کا ایک مستقل باب ہے۔ وہ ہزاروں علما کرام کے استاد اور لاکھوں انسانوں کے دینی و روحانی مربی تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے متعدد دینی تحریکات کی جو قیادت اور سرپرستی فرمائی وہ انحطاط اور تنزل کے اس دور میں بہت یاد آتی ہے۔ مجھے حضرت درخواستیؒ کے ساتھ ایک کارکن کے طور پر ربع صدی تک خدمت سر انجام دینے کی سعادت حاصل ہوئی جسے دنیا و آخرت میں اپنے لیے باعث افتخار سمجھتا ہوں۔
حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخاوستیؒ کا خصوصی ذوق دینی مدارس کا قیام اور ان کی سرپرستی تھا۔ جس علاقہ میں جاتے وہاں معلوم کرتے کہ دینی تعلیم کا کوئی ادارہ موجود ہے؟ اگر یہ دیکھتے کہ وہ علاقہ دینی مکتب و مدرسہ سے خالی ہے تو ان کی پہلی ترجیح یہ ہوتی تھی کہ علما کرام اور اپنے عقیدت مندوں کو ترغیب دے کر مدرسہ قائم کراتے اور پھر اس کی سرپرستی بھی کرتے۔
دینی اجتماعات میں ان کے بیانات دینی معلومات کے ساتھ ساتھ جذب و کیف کا حسین امتزاج ہوتے تھے۔ ان کا اوڑھنا بچھونا حدیث رسولؐ کا تذکرہ ہوتا تھا، وہ جس محفل میں ہوتے کوئی نہ کوئی حدیث سناتے۔ جبکہ عوامی بیانات میں تو روانی کے ساتھ احادیث پڑھتے جاتے تھے۔ ان کے بیانات میں جہاد اور دینی جدوجہد کا تذکرہ لازمی ہوتا تھا، وہ اپنے سامعین کو دینی جدوجہد میں کسی نہ کسی طرح شریک رہنے کی تلقین کرتے۔ علما اور طلبہ کو بطور خاص ابھارتے، انھیں مجمع میں کھڑا کر کے ان سے دینی جدوجہد کرنے کا وعدہ لیتے اور بسا اوقات علما کرام اور کارکنوں کی حوصلہ افزائی کے لیے دستار بندی بھی فرماتے۔ خود مجھے دو بار یہ شرف حاصل ہو چکا ہے اور دونوں مواقع پر میری باری آنے پر دستاریں ختم ہوجانے پر انھوں نے اپنے سر سے ٹوپی اتار کر میرے سر پر رکھ دی۔ یہ دونوں ٹوپیاں میرے پاس محفوظ ہیں اور ان می�� سے ایک ٹوپی جمعہ و عیدین کو دستار کے نیچے اہتمام سے پہنتا ہوں۔
حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ کو حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے وصال کے بعد علما حق کے سب سے بڑے قافلہ ’’جمعیۃ علماء اسلام پاکستان‘‘ کا امیر منتخب کیا گیا اور زندگی کے آخری لمحہ تک وہ اس حیثیت سے اپنے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ افغانستان میں روسی استعمار کی عسکری یلغار کے بعد وہاں کے غیور علما کرام نے علم بغاوت بلند کیا اور بیرونی جارحیت کے خلاف جہاد کا آغاز کیا تو ان کی سرپرستی اور معاونت میں حضرت مولانا درخواستیؒ پیش پیش تھے۔ انھوں نے پورے ملک میں اس مقصد کے لیے جہاد کی آواز لگائی اور قبائلی علاقوں کے مسلسل دورے کر کے وہاں کے مسلمانوں اور علما کرام کو جہاد افغانستان کی حمایت اور پشت پناہی کے لیے تیار کیا۔ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ روسی جارحیت کے خلاف جہاد افغانستان کی کامیابی میں جہاں افغانستان، پاکستان اور دنیا بھر کے علما کرام اور دینی کارکنوں کی قربانیاں اور محنت کار فرما ہے وہاں حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ، حضرت مولانا عبد الحق اکوڑہ خٹک اور حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی مساعی کو کلیدی حیثیت حاصل ہے اور کوئی مؤرخ جہاد افغانستان کی تاریخ کو ان بزرگوں کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں کر سکتا۔
پاکستان میں تمام مکاتب فکر کے اکابر علما کرام نے قرارداد مقاصد، 22 دستوری نکات اور تحریک ختم نبوت کی صورت میں نفاذِ اسلام کے جو دائرے متفقہ طور پر طے کیے تھے، حضرت درخواستیؒ نے دینی جدوجہد کے اس طریقہ کار اور حدود کا زندگی بھر پہرہ دیا۔ اور ان کی راہنمائی و سرپرستی میں نہ صرف قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا تاریخی فیصلہ ہوا بلکہ دستور پاکستان میں نفاذِ اسلام کی اصولی بنیادیں ہمیشہ کے لیے طے پا گئیں جو بلاشبہ وطن عزیز میں نفاذِ شریعت کی مضبوط اساس ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے مسلم ممالک اور حکومتوں کے لیے نفاذِ اسلام کے حوالہ سے مشعل راہ ہیں۔ ملک کے اندر انھوں نے ہمیشہ پر امن اور قانونی جدوجہد کا طریقہ اپنایا اور اہل دین کو اسی کی تلقین کرتے رہے۔ وہ ہر موقع پر فرماتے کہ ہمارے اکابر نے دینی جدوجہد کا جو طریق کار طے کیا ہے اور جس اندا زمیں انھوں نے محنت کی ہے ہمیں اس کے مطابق چلنا ہوگا، اس سے ہٹ کر ہم اگر دینی جدوجہد کا کوئی اور راستہ اختیار کریں گے تو وہ ہمارے لیے کامیابی کا راستہ نہیں ہوگا۔
حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ نے زندگی بھر قرآن و سنت اور دینی علوم کی مسلسل تعلیم دی، وہ اس کے ساتھ دینی جدوجہد میں حصہ لیتے رہے، روحانی مجالس آباد کرتے رہے، دین کی دعوت و تبلیغ کے کام کو آگے بڑھانے اور باطل تحریکات کے مقابلہ کرنے کے لیے علما کرام، طلبہ اور دینی کارکنوں کو تیار کرتے رہے اور ان کی سرپرستی فرماتے رہے۔ آج دینی جدوجہد کے حوالے سے فکری خلفشار کی جو فضا پیدا کی جا رہی ہے اور طرح طرح کے فتنے ابھر رہے ہیں اس میں حضرت درخواستیؒ کے ذوق، فکر اور فیض کو عام کرنے اور نئی نسل کو ان بزرگوں سے متعارف کرانے کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ اس لیے ہمیں کوشش کرتے رہنا چاہیے کہ اپنے بزرگوں کا بار بار تذکرہ کریں اور ان کے فکر و ذوق کو عام کر کے نئی نسل کی صحیح راہنمائی کا اہتمام کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات جنت الفردوس میں بلند سے بلند تر فرمائیں اور ہم سب کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین[1]۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ جلہ/مقام/زیراہتمام: روزنامہ اوصاف، اسلام آباد تاریخ اشاعت: 6 جنوری 2016ء