حسرت جے پوری

بھارتی شاعر

حسرت جے پوری 15 اپریل 1922ءکو راجستھان کے جے پور شہر میں پیدا ہوئے۔ حسرت کا اصل نام اقبال حسین تھا۔ حسرت نے انگریزی میڈیم سے عصری تعلیم حاص�� کی اورپھر اپنے دادا فدا حسین سے گھر پر ہی اردو اور فارسی سیکھی۔ حسرت نے تقریباََ 20 سال کی عمر میں شاعری شروع کی اور اسی دور میں ایک ہندو لڑکی سے عشق بھی ہوا۔

حسرت جے پوری
پیدائشی ناماقبال حسین
پیدائش15 اپریل 1922(1922-04-15)جے پور، راجستھان
وفات17 ستمبر 1999(1999-90-17) (عمر  77 سال)
پیشےشاعر
سالہائے فعالیت1949-1999

ابتدائی ایام

ترمیم

اقبال حسین حسرت جے پوری جے پور پیدا یدا ہوئے، جہاں حسرت نے انگریزی کی تعلیم حاصل کی جب تک درمیانے درجے کی سطح اور اس کے بعد چچا دادا، فدا حسین[1] سے حاصل کی اردو اور فارسی۔ حسرت نے تقریباََ 20 سال کی عمر میں شاعری شروع کی اور اسی دور میں ایک ہندو لڑکی سے عشق بھی ہواجس کا نام رادھا تھا۔

بالی ووڈ میں کیریئر

ترمیم

1940ء میں وہ بمبئی آئے اور ذریعہ معاش کے لیے 11ر وپے ماہانہ تنخواہ پر بس کنڈیکٹر بن گئے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ مشاعروں میں شرکت کیا کرتے تھے۔ پرتھوی تھیٹر کے ایک مشاعرے میں پرتھوی راج کپور نے اپنے بیٹے سے ان کی سفارش کی جو شنکر جے کشن کی موسیقار جوڑی کے ساتھ فلم برسات بنانے کی تیاری کر رہے تھے۔ برسات 1949ء کے لیے حسرت جے پوری نے پہلا سولو نغمہ ’’جیا بے قرار ہے، چھائی بہار ہے ‘‘اور پہلا ڈوئیٹ نغمہ’’ چھوڑ گئے بالم ،مجھے ہائے اکیلا چھوڑ گئے ‘‘ لکھا تھا۔

گیت کار شلیندر کے ساتھ نغمہ نگار حسرت جے پوری نے راج کپور کے لیے 1971ء تک گیت لکھے۔ شلیندر کی موت اور ’’میرا نام جوکر ‘‘ اور ’’کل آج اور کل ‘‘کی ناکامی کے بعد راج کپور نے دیگر موسیقاروں اور گیت کاروں کی خدمت حاصل کرنا شروع کر دی۔ راج کپور فلم پریم روگ کے ذریعے حسرت صاحب کو واپس لینا چاہتے تھے مگر قرعہ فال امیر قزلباش کے نام نکلا،لیکن ’’رام تیری گنگا میلی ‘‘ میں راج کپور نے حسرت کو ایک گیت لکھنے کو کہا اور اس فلم کے لیے حسرت نے’’ سن صاحبہ سن پیار کی دھن ‘‘ نغمہ لکھا جو اس فلم کا سب سے زیادہ مقبول گیت ثابت ہوا۔ گیت کار شلیندر ’’تیسری قسم ‘‘نامی فلم پروڈیوس کی تب انھوں نے اس فلم کے گیت حسرت سے لکھوائے۔ حسرت نے 1951ء کی فلم ’’ہلچل‘‘ کے منظرنامے بھی لکھے تھے۔ بطور نغمہ نگار ان کی آخری فلم ’’ہتیہ :دی مرڈر‘‘ 2004ء تھی۔

منتخب فہرست کے گانے، نغمے

ترمیم

حسرت جے پوری نے یادگار ہندی فلموں برسات، داغ، آہ، انارکلی، بوٹ پالش، چوری چوری، یہودی، جنگلی، ہمراہی، دل ایک مندر، میرے حضور، گمنام، جانور، میرا نام جوکر وغیرہ کے لیے گیت لکھے۔ ان کے لکھے مقبول گیتوں میں ’جیا بے قرار ہے چھائی بہار ہے ‘، ’چھوڑ گئے بالم‘، ’اب میرا کون سہارا‘، ’بچھڑے ہوئے پردیسی‘، ’آج کل ریتے میرے پیار کے چرچے ‘، ’بدن پہ ستارے لپیٹے ہوئے ‘، ’دل کا بھنور کرے ‘، ’احسان تیرا ہوگا مجھ پر‘، ’بہاروں پھول برساؤ‘، ’زندگی اک سفر ہے سہانہ‘، ’دل کے جھرونکوں میں تجھ کو‘، ’اکیلے اکیلے کہاں جا رہے ہو‘، ’جانے کہاں گئے وہ دن‘، ’آجا صنم مدھر چاندنی میں ہم ‘، ’تم سے اچھا کون ہے ‘، ’سن صاحبا سن پیار کی دھُن‘، ’پردے میں رہنے دو‘، ’اک گھر بناؤں گا‘، ’تجھے جیون کی ڈور سے ‘، ’کون ہے جو سپنوں میں آیا‘، ’تیری پیاری پیاری صورت کو‘، ’سو سا ل پہلے مجھے تم سے پیار تھا‘، ’یہ میرا پریم پتر پڑھ کر‘، ’تم نے پکارا اور ہم چلے آئے ‘، ’دنیا بنانے والے ‘، ’تم مجھے یوں بھلا نہ پاؤ گے ‘، ’گمنام ہے کوئی بدنام‘، ’جانے جہ نظر پہچانے جگر‘، ’اے گل بدن‘، ’آجا رے اب میرا دل پکارے ‘، ’پنکھ ہوتے تو اڑ جاتی‘، ’ہے نہ بولو بولو‘، ’ب دردی بالما تجھ کو‘، ’آروز دے کے ہمیں تم بلاؤ‘، ’اک بے وفا سے پیار کیا‘، ’میں کا کروں رام مجھے بڈھا‘، ’آجا تجھ کو پکارے میرے گیت‘، ’برسات م،یں جب آئے گا ساون کا مہینہ‘ وغیرہ شامل ہیں۔[2][3]

گانے کا عنوان فلم نوٹ
جیا بے قرار ہے برسات پہلے سے ریکارڈ گیت
چھوڑ گئے بالم ،مجھے ہائے اکیلا چھوڑ گئے برسات سب سے پہلے یوگل نغمہ
زندگی اک سفر ہے سہانا انداز
تیری پیاری پیاری صورت کو سسرال چندہ جے پوری کے لیے خاص طور پر کے لیے لکھا
پنکھ ہوتی تو اڑ آتی رے' سہرا
تیرے خیالوں میں ہم' گیت گیا پتھروں نے
احسان تیراہوگا مجھ پر جنگلی
تم مجھے یوں بھلا نہ پاؤ گے پگلا کہیں کا
سایونارا سایونارا لو ان ٹوکیو
دنیا بنانے والے تیسری قسم
سن صاحبہ سن پیار کی دھن رام تیری گنگا میلی
بدن پہ ستارے لپٹے ہیو پرنس حوصلہ افزائی کے لیے یہ لکھنے کے گیت پر ایک عورت کو دیکھ کر میں ملبوس ایک ساڑھی کے ساتھ studded درخشندہ ستاروں میں پیرس
یہ میرا پریم خط پڑھ کر سنگم لکھا جب وہ محبت میں گر گیا کے ساتھ ایک ہندو لڑکی کا نام رادھا
بول رادھا بول سنگم ہو گا کہ نہیں سنگم گذشتہ کی طرح گیت اس گیت کا ذکر اس کے پریمی رادھا کی طرف سے نام۔ یہ گیت بھی لکھا جائے کے لیے ہندو لڑکی رادھا۔

شاعری

ترمیم

حسرت جے پوری نے شاعری کی کئی کتابوں کو ہندی اور اردو میں لکھا ہے۔ حسرت نے ایک بار کہا، "ہندی اور اردو کی طرح ہیں دو عظیم اور لازم و ملزوم بہنوں".[1]

ذاتی زندگی

ترمیم

حسرت جے پوری نے اپنی بیوی کے مشورہ۔ اپنی آمدنی کی سرمایہ کاری جائداد پر کی ان کی خصوصیات، حسرت کی مالی حالت بہتر تھی۔

انتقال

ترمیم

حسرت کا انتقال 17ستمبر1999ء میں ہوا۔

ایوارڈ

ترمیم
  • Filmfare بہترین شاعر کا ایوارڈ - 1972 کے لیے Zindagi ایک صفر Hai Suhana (Andaz, 1971)[4][5]
  • Filmfare بہترین شاعر کا ایوارڈ - 1966 کے لیے Baharon Phool Barsao (Suraj)
  • Josh Malihabadi ایوارڈ سے اردو کانفرنس
  • ڈاکٹر Ambedkar ایوارڈ کے لیے Jhanak Jhanak توری Baaje Payaliya (محض Huzoor), ایک Brajbhasha گیت
  • Jaipuri بھی دیا گیا ڈاکٹریٹ کی دنیا سے یونیورسٹی گول میز۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب "Hasrat Jaipuri"۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 نومبر 2006 
  2. انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر حسرت جے پوری
  3. حسرت جے پوی کے 100 مقبول گیت۔ یوٹیوب پر
  4. Awards IMDB
  5. "List of Filmfare Award Winners and Nominations, 1953-2005" (PDF)۔ 12 جون 2009 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 مئی 2016