آئس لینڈ
آئس لینڈ | |
---|---|
پرچم | نشان |
شعار(انگریزی میں: Inspired by Iceland) | |
ترانہ: | |
زمین و آبادی | |
متناسقات | 65°N 19°W / 65°N 19°W [1] |
پست مقام | بحر اوقیانوس (0 میٹر ) |
رقبہ | 103004.0 مربع کلومیٹر |
دارالحکومت | ریکیاوک |
سرکاری زبان | آئس لینڈی زبان [2] |
آبادی | 364260 (31 دسمبر 2019)[3] |
|
184880 (2019)[4] 187982 (2020)[4] 190942 (2021)[4] 195800 (2022)[4] سانچہ:مسافة |
|
175683 (2019)[4] 178482 (2020)[4] 181577 (2021)[4] 186202 (2022)[4] سانچہ:مسافة |
حکمران | |
طرز حکمرانی | پارلیمانی جمہوریہ |
قیام اور اقتدار | |
تاریخ | |
یوم تاسیس | 17 جون 1944 |
عمر کی حدبندیاں | |
شادی کی کم از کم عمر | 18 سال |
شرح بے روزگاری | 5 فیصد (2014)[5] |
دیگر اعداد و شمار | |
منطقۂ وقت | متناسق عالمی وقت±00:00 |
ٹریفک سمت | دائیں |
ڈومین نیم | is. |
سرکاری ویب سائٹ | باضابطہ ویب سائٹ |
آیزو 3166-1 الفا-2 | IS[6] |
بین الاقوامی فون کوڈ | +354 |
درستی - ترمیم |
آئس لینڈ کا سرکاری نام جمہوریہ آئس لینڈ ہے۔ (Icelandic: Ísland or Lýðveldið Ísland; آئس لینڈ ایک جزیرہ ہے جو شمال مغربی یورپ کا ایک ملک ہے۔ اس کے بیرونی حصے شمال میں اٹلانٹک (بحر اوقیانوس) سمندر میں یورپ اور گرین لینڈ کے درمیان موجود ہیں۔ جولائی 2008ء کے مطابق اس کی آبادی 311396 ہے۔ اس کا دار الحکومت اور سب سے بڑا شہر ریکیاویک ہے۔ وسطی اٹلانٹک پلیٹ پر اپنے محل وقوع کے لحاظ سے آئس لینڈ آتش فشانی اور ارضیات کے حوالے سے کافی بڑے پیمانے پر متحرک ہے۔ اس کا اندرونی حصہ سطح مرتفع پر مشتمل ہے جو ریتلے میدانوں، پہاڑوں اور گلئیشرز(یخ بست دریا) پر مشتمل ہے اور ان ہی گلیشئرز (یخ بست دریا) سے دریا نکل کر اس کے زیریں حصوں سے ہوتے ہوئے سمندر تک جاتے ہیں۔ خلیجی رو کی وجہ سے آئس لینڈ کا درجہ حرارت اس کے محل وقوع کے باوجود نسبتاً معتدل رہتا ہے اور اس وجہ سے یہاں رہائش کرنا نسبتاً آسان ہے۔ آئس لینڈ میں انسانی آبادی کے آثار 874ء سے ملتے ہیں جب نارویجیئن سردار انگولفر آرنارسن آئس لینڈ کا پہلا مستقل آباد کار بنا۔ اس کے علاوہ دیگر لوگوں نے یہاں کے چکر لگائے تھے اور قیام بھی کیا تھا۔ اگلی صدیوں کے دوران نارڈک اور گائلیک لوگوں نے آئس لینڈ کو اپنا مستقر بنایا۔ بیسویں صدی سے قبل تک آئس لینڈ کی آبادی کا انحصار ماہی گیری اور زراعت پر تھا اور 1262ء سے 1944ء تک یہ ناروے کا حصہ رہا اور اس کے بعد ڈینش (دانمارکی) بادشاہت کا۔ بیسویں صدی میں آئس لینڈ کی معیشت اور بہبود کا نظام بہت تیزی سے پروان چڑھا۔ آج آئس لینڈ ایک ترقی یافتہ ملک ہے، فی کس جی ڈی پی کے لحاظ سے دنیا میں پانچویں اور انسانی ترقی کے حوالے سے دنیا میں دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ اس کی معیشت فری مارکیٹ (آزاد منڈی) اکانومی پر مشتمل ہے جس میں خدمات، فنانس(مالیات)، ماہی گیری اور مختلف صنعتیں اہم سیکٹرز ہیں۔ سیاحت بھی کافی مقبول ہے۔ آئس لینڈ UN, NATO, EFTA, EEA اور OECD کا رکن ہے لیکن یورپی یونین کا رکن نہیں۔
تاریخ
ترمیماگرچہ تاریخی حوالوں سے آئرش منکس کے ابتدائی وجود کا کچھ تذکرہ ملتا ہے، عمومی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ آئس لینڈ کی دریافت اور اس کی آبادکاری ناروے کے مہم جوؤں نے نویں صدی کے آخر میں کی تھی۔ یہاں سب سے پہلا آبادکار ناروے کا انگولفر آرنارسن تھا جس نے اپنا مویشی خانہ بنایا۔ انگولفر کے بعد بہت سارے مہاجرین نے ادھر کا رخ کیا جن کی اکثریت نارویجن اور آئرش غلاموں کی تھی۔ 930ء تک قابل کاشت زمین کا تقریباً تمام حصہ لوگوں نے اپنے قبضے میں کر لیا تھا اور آلتھنگ (Althing) یعنی مقننہ اور پارلیمان بنائی گئی تھی جو آئس لینڈ کی آزاد ریاست کا مرکز تھی۔ 1000ء میں پرامن طریقے سے مسیحیت کو قبول کیا گیا۔ آزاد ریاست کا درجہ 1962ء میں ختم ہوا جب پرانے آبادکاروں کا بنایا ہوا سیاسی نظام ناکامی کا شکار ہوا کیونکہ یہ مقامی سرداروں کی بڑھتی ہوئی طاقت کا مقابلہ نہ کر سکتا تھا۔
اندرونی مزاحمتوں اور سٹرلنگ دور کی سول نافرمانی کی وجہ سے پرانے معاہدے کی توثیق کی گئی جس کے سبب آئس لینڈ ناورے کی بادشاہت میں آ گیا۔ چودہویں صدی میں آئس لینڈ کی ملکیت ناروے -ڈنمارک کو منتقل کی گئی جب کالمار یونین (کالماری اتحاد) کے تحت ڈنمارک اور ناروے کی بادشاہتوں کا انضمام ہوا۔ آنے والی صدیوں کے د وران آئس لینڈ یورپ کے غریب ترین ملکوں میں شمار ہونے لگا۔ غیر زرخیز زمین، آتش فشانوں کے پھٹنے اور سخت موسم کے باعث یہاں زندگی بہت مشکل ہو گئی کیونکہ ان کا دارومدار زراعت پر تھا۔ سولہویں صدی کے دوران ناروے کے بادشاہ کرسچین (کریستیان) سوم نے لوتھرازم (لوتھریت) کو ہر پہلو سے ترویج دینی شروع کی۔ آخری کیتھولک بشپ کا 1550ء میں اس کے دو بیٹوں سمیت سر قلم کر دیا گیا جس کے بعد پورا ملک مکمل طور پر لوتھیرین (لوتھری) بن گیا۔ اس کے بعد سے اب تک لوتھرازم (لوتھریت) اکثریتی مذہب چلا آ رہا ہے۔
1814ء میں نیپولن کی جنگوں کے بعد ناروے اور ڈنمارک کیل کے معاہدے کے بعد دو الگ ملک بنے تاہم آئس لینڈ ڈنمارک کے قبضے میں رہا۔ انیسویں صدی کے دوران ملک کے حالات بدترین ہوتے چلے گئے اور آبادی کی اکثریت نے جنوبی امریکا کی طرف رخ کیا۔ اسی دوران جون سیگوروسون کے تحت ایک نئی آزادی کی تحریک نے جنم لیا جو یورپ کے رومانوی اور قوم پرستانہ نظریات سے متاثر تھی۔ 1874ء میں ڈنمارک نے آئس لینڈ کو خود مختاری عطا کردی جو 1904ء میں مزید وسیع کی گئی۔ یکم دسمبر 1918ء میں طے پانے والے معاہدے کے نتیجے میں آئس لینڈ کو ڈنمارک کے بادشاہ کے ماتحت ایک مکمل خود مختار ریاست کا درجہ ملا۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران 9 اپریل 1940ء کو جرمنی کے ڈنمارک پرقبضے کے باعث آئس لینڈ اور ڈنمارک کے تعلقات کشیدہ ہو گئے۔ ایک ماہ بعد برطانوی فوجوں نے ریکیاویک کی بندرگاہ پر زبردستی ڈیرہ ڈال دیا جو آئس لینڈ کی غیر جانبداری کے خلاف تھا۔ اتحادی قبضہ جنگ کے دوران جاری رہا۔ 1941ء میں یہ قبضہ امریکی فوج نے سنبھال لیا۔ اس کے بعد 17 جون 1944ء کو آئس لینڈ رسمی طور پر ایک آزاد جمہوریہ بنا۔ 1946ء میں قابض افواج کا انخلا عمل میں آیا۔ اندورن ملک مخالفت اور بغاوتوں کے باوجود آئس لینڈ ناٹو کا رکن 30 مارچ 1949ء کو بنا۔ 5 مئی 1951ء کو امریکا کے ساتھ آئس لینڈ کا دفاعی معاہدہ عمل میں آیا جس کے نتیجے میں امریکی افواج واپس آئیں اور سرد جنگ کے دوران معاہدے کے مطابق دفاع کا فریضہ سر انجام دیتی رہیں اور 2006ء کے خزاں تک موجود رہیں۔
جنگ کے فوراً بعد کے وقت میں معاشی ترقی واقع ہوئی جس میں ماہی گیری کو صنعت کا درجہ دیا گیا اور ہر قسم کی تجارت کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی۔ 1970ء میں سرد جنگ زوروں پر تھی۔ آئس لینڈ اور برطانیہ کے بہت تنازعے ماہی گیری کی حدود کے حوالے سے کھڑے ہوئے۔ 1994ء میں آئس لینڈ کے یورپی معاشی علاقے میں شمولیت کے بعد معیشت نے بہت گہرائی اور آزادی حاصل کی۔
انتظامی تقسیم
ترمیمآئس لینڈ کوعلاقوں، آبادیوں، کاؤئنٹیوں اور میونسپلٹیوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ کل 8 مختلف علاقوں کو شماریاتی حوالوں سے استعمال کیا جاتا ہے۔ ضلعی عدالتوں کی حدود ابھی تک پرانی تقسیم کے مطابق چل رہی ہیں۔ مارچ 2003ء میں آئین میں ترمیم کے ذریعے انھیں 6 مختلف انتظامی علاقوں میں تقسیم کیا گیا۔
- ریکیاوک کا شمال اور ریکیاوک کا جنوب (شہری علاقے)
- جنوب مغرب (ریکیاوک کے تین ملحقہ علاقے)
- شمال مغرب اور شمال مشرق (آئس لینڈ کا شمالی نصف حصہ) اور
- جنوب (آئس لینڈ کا جنوبی نصف حصہ، ریکیاوک اور اس کے ملحقہ علاقے نکال کر)
آئس لینڈ کو 26 مجسٹریٹوں میں تقسیم کیا گیا ہے جو مختلف جگہوں پر حکومت کی نمائیدگی کرتے ہیں۔ ان کے فرائض میں پولیس کی دیکھ بھال، ٹیکس کی وصولی، بینک دیوالیہ ہونے کے متعلق فیصلے اور شادیوں کو سر انجام دینا شامل ہیں۔ آئس لینڈ میں 29 میونسپلٹیاں ہیں جو اپنے مقامی اموروں جیسا کہ اسکول، ذرائع نقل و حمل وغیرہ کو خود سنبھالتے ہیں
شہر اور قصبہ جات
ترمیمریکیاوک کا شہر ملک کا دار الحکومت ہے اور سب سے زیادہ آبادی والا شہر بھی۔ ریکیاوک اور اس کے نزدیکی شہروں کوپاوگُر، ہافنارفیوریور، موسفیلسبیر، گاروابیر، سلتیارنارنس اور الفتانس مل کر ایک بڑا علاقہ بناتے ہیں جہاں ملک کی تقریباً دو تہائی آبادی رہتی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر شہروں میں اکوریری، کیفلاویک، سیلفوس، ارکینس اور ایسافیورور شامل ہیں۔
جغرافیہ
محل وقوع اور ٹوپوگرافی
ترمیمآئس لینڈ شمالی بحیرہ آرکٹک میں آرکٹک سرکل سے ذرا سا جنوب میں واقع ہے۔ یہ سرکل آئس لینڈ کے شمال سے چند علاقوں کو چھوتا ہوا گزرتا ہے۔ ہمسائیہ گرین لینڈ کے برعکس آئس لینڈ کو یورپ کا حصہ مانا جاتا ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے آئس لینڈ یورپ اور جنوبی امریکا، دونوں براعظموں کا حصہ ہے۔ اپنی ثقافتی، معاشی اور لسانی، کئی حوالوں سے سکاندینیویا کا حصہ شمار ہوتا ہے۔ یہ دنیا کا 18واں بڑا اور یورپ کا برطانیہ کے بعد دوسرا بڑا جزیرہ ہے۔
آئس لینڈ کا تقریباً 11 فیصد حصہ گلیشئرز(یخ بستہ دریاؤں) سے گھرا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے 4970 کلومیٹر طویل ساحل پر بہت سی کھاڑیاں موجود ہیں اور اکثر اہم شہر بھی انہی کے نزدیک موجود ہیں۔ آئس لینڈ کے بلند علاقے بہت سرد اور ناقابل رہائش ہیں کیونکہ وہ ریت اور پہاڑوں کا مجموعہ ہیں۔ اس کے اہم شہروں میں ریکیاوک، کیفلاویک، جہاں بین الاقوامی ہوائی اڈے موجود ہیں اور اکوریوری ہیں۔ گریمزی جزیرہ جو آئس لینڈ کے انتہائی شمال میں ہے، آرکٹک سرکل کے پارآبادی رکھتا ہے۔
انسانی آمد کے وقت یہاں واحد ممالیہ جانور آرکٹک لومڑی تھی۔ یہ برفانی دور کے بعد یہاں جمے ہوئے سمندر پر چلتی ہوئی یہاں تک پہنچی۔ اس کے علاوہ یہاں کے قدیمی کوئی چرندے یا خزندے نہیں ہیں۔ آئس لینڈ میں 1300 مختلف اقسام کے حشرات موجود ہیں جو باقی دنیا کی نسبت بہت کم ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ برفانی دور میں آئس لینڈ تقریباً سارے کا سارا برف سے ڈھکا ہوا تھا۔
انسانی آبادکاری سے قبل یہاں جنگلات موجود تھے جو کل آئس لینڈ کا 25 سے 40 فیصد حصہ تھے۔ جونہی آبادکار پہنچے، انھوں نے جنگلات کو کاٹ کر زراعت کے لیے اور گھاس کے میدانوں کے لیے زمین بنانا شروع کر دی۔ بیسویں صدی کے شروع تک یہ جنگلات تقریباً ناپید ہو چلے تھے۔ اس کے بعد دوبارہ سے شجر کاری کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن ابھی بھی یہ بہت کم مقدار میں ہیں۔ نئی شجرکاری کے نتیجے میں بہت سی نئی قسموں کے درخت بھی آئس لینڈ میں نظر آتے ہیں مگرموسمی نا مونزونیت کی وجہ سے درختوں کی پرورش کٹھن ہے -کوئی بھی پودا زیادہ پنھپ نہیں پاتا- آئس لینڈ میں کل چار نیشنل پارک ہیں جو Jökulsárgljúfur National Park, Skaftafell National Park, Snæfellsjökull National Park, اور Þingvellir National Park ہیں۔
رقبہ
ترمیم- ًملک کا کل رقبہ: 103000 مربع کلومیٹر
- نباتات: 23805 مربع کلومیٹر
- جھیلیں : 2757 مربع کلومیٹر
- گلیشئر: 11922 مربع کلومیٹر(یخ بستہ دریا)
- ناقابل استعمال زمین: 64538 مربع کلومیٹر
ارضیاتی اور آتش فشانی تحاریک
ترمیمارضیاتی اعتبار سے کم عمر زمین، آئس لینڈ ارضیاتی اعتبار سے متحرک حصے اور مڈاٹلانٹک پلیٹ پر واقع ہے جو اس کے بالکل درمیان سے گزرتی ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ارضیاتی اعتبار سے آئس لینڈ بہت زیادہ متحرک ہے اور یہاں بہت سارے آتش فشاں موجود ہیں جن میں ہیکلا، ایلڈگیا اور ایلڈفل ہیں۔ لاکی میں 1783ء سے 1784ء تک آتش فشان پھٹا جس سے پیدا ہونے والے دھوئیں اور گرد کے بادلوں نے یورپ کے اکثر اور افریقہ اور ایشیاٗ کے کئی علاقوں کو کئی ماہ تک چھپائے رکھا۔
یہاں بہت سارے گیزر (گرم پانی کا چشمے) بھی پائے جاتے ہیں۔ جیوتھرمل پاور کی کثرت ہونے کے سبب اور بہت سارے دریاؤں اور آبشاروں کے باعث یہاں شہریوں کو گرم اور ٹھنڈا پانی بہت سستے داموں میں ہرگھرمیں دستیاب ہے۔ آئس لینڈ بذات خود بسالٹ سے بنا ہوا ہے جیسا کہ جزائر ہوئی ہیں۔ تاہم یہاں مختلف قسم کے آتش فشاں اور لاوے پائے جاتے ہیں۔
آئس لینڈ میں دنیا کا سب سے کم عمر جزیرہ موجود ہے جو 5 نومبر 1963ء سے 5 جون 1968ء میں ہونے والی آتش فشانی تحاریک سے وجود میں آیا۔
بڑی جھیلیں
ترمیم- Þórisvatn (ذخیرہ آب) 83 تا 88 مربع کلومیٹر
- Þingvallavatn 82 مربع کلومیٹر
- Lögurinn 53 مربع کلومیٹر
- Mývatn 37 مربع کلومیٹر
- Hvítárvatn 30 مربع کلومیٹر
- óp 30 مربع کلومیٹر
- Langisjór 11.6 مربع کلومیٹر
گہری جھیلیں
ترمیم- Öskjuvatn 220 میٹر
- Hvalvatn 160 میٹر
- Jökulsárlón 150 میٹر
- Þingvallavatn 114 میٹر
- Þórisvatn ذخیرہ آب 113 میٹر
- Lögurinn 112 میٹر
- Kleifarvatn 97 میٹر
- Hvítárvatn 84 میٹر
- Langisjór 75 میٹر
موسم
ترمیمآئس لینڈ کے ساحلی علاقوں کا موسم سرد اوشیانک ہے۔ جنوبی بحرِ اوقیانوس کی گرم رو کی وجہ سے آئس لینڈ کا درجہ حرارت اسی خط پر واقع دیگر ممالک کی نسبت گرم ہوتا ہے۔ سردیاں معتدل اور تیز ہواؤں کے ساتھ اور گرمیاں نم اور ٹھنڈی۔
آئس لینڈ میں اب تک کا سب سے زیادہ درجہ حرارت 30.5 ڈگری اور سب سے کم درجہ حرارت منفی 38 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
نباتات و حیوانات
ترمیمآئس لینڈ میں چند ایک ہی معدنیات یا زراعتی ذخائر موجود ہیں۔ آئس لینڈ کا تین چوتھائی حصہ بنجر ہے۔ نباتات کا بیشتر حصہ گھاس کے میدانوں پر مشتمل ہے جو پالتو مویشیوں کی چراگاہ ہے۔ آئس لینڈ کا اپنا آبائی واحد درخت برچ Betula pubescens ہے۔ (بیتولا/غان)
مستقل انسانی آبادکاری نے یہاں کے ماحول کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ تقریباً تمام کے تمام جنگلات کو تعمیراتی اور جلانے والی لکڑی کے حصول کے لیے تباہ کیا گیا۔ آج چند ایک ہی برچ کے درخت مختلف جگہوں پر ملتے ہیں۔
آئس لینڈ کے جانوروں میں آئس لینڈ کی بھیڑ، مویشی اور آئس لینڈک گھوڑے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ آئس لینڈ کے گرد موجود پانیوں میں مچھلیوں کی کئی اقسام آئس لینڈ کے معاشی نظام کا اہم حصہ ہیں اور آئس لینڈ کی کل برآمدات کا نصف حصہ بھی۔ جنگلی پستانیہ جانوروں میں قطبی لومڑی، منک، جنگلی اور گھریلو چوہے، خرگوش اور رینڈئیر شامل ہیں۔ 1900ء کے لگ بھگ کبھی کبھاربرفانی ریچھوں نے بھی ادھر کا چکر لگایاتھا جو گرین لینڈ سے گلیشئر پر بہتے ہوئے ادھر پہنچے۔ پرندے خصوصاً بحری پرندے یہاں کی جنگلی حیات کا اہم جزو ہیں۔ پفن، سکوا اور کٹی ویک، ساحل کی چٹانوں پر گھونسلا بناتے ہیں۔ آئس لینڈ کا اپنا بیڑا ہے جو بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود وہیل کا شکار جاری رکھتا ہے۔
زبان
ترمیمآئس لینڈ میں آئس لینڈ زبان بولی اورلکھی جاتی ہے۔ یہ زبان جنوبی جرمن زبان ہے جو پرانی نورس زبان سے بہت نزدیک ہے۔ ابتداٗ کے لحاظ سے یہ زبان نارڈک ہے ��ور یورپ کی قدیم ترین زبانوں میں سے ایک ہے۔ یہ واحد قدیم زبان ہے جس میں رونک لفظ Þ شامل ہے۔ انگریزی اور ڈینش زبانیں یہاں عام سمجھی اور بولی جاتی ہیں۔ ان دونوں زبانوں کی تعلیم اسکول کے نصاب کا لازمی حصہ ہے۔ اس کے علاوہ سوئیڈش، ناوریجیئن اور جرمن بھی عام بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔
آبادی
ترمیمآئس لینڈ کی اپنی آبادی نارڈک اور سیلٹک النسل تھی۔ اس کا ثبوت تحاریر اور سائنس جیسا کہ خون کے نمونوں اور جینیاتی تجزیے سے ملتا ہے۔ جینیاتی تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ آباد کاروں میں مردوں کی اکثریت نارڈک اور عورتوں کی اکثریت سیلٹک تھی۔
آغاز سے انیسویں صدی کے درمیان تک آبادی کا اندازہ 40,000 سے 60,000 لگایا جاتا ہے۔ اگرچہ سخت سردیوں، آتش فشانی راکھ اور طاعون کے باعث آبادی میں فرق پڑتا رہا تھا۔ 1703ء میں پہلی مردم شماری کے نتیجے میں آبادی کی تعداد 50,358 معلوم ہوئی۔
لاکی آتش فشاں کے پھٹنے کے بعد، جو 1783ء سے 1784ء تک رہا، آبادی 40,000 کی انتہائی کم حدتک پہنچی۔ حالات کے بہتر ہونے پر انیسویں صدی کے درمیان تک اور موجودہ دور میں یہ آبادی تیزی سے بڑھتی چلی گئی ہے۔ 1850ء میں آبادی 60,000 تھی اور 2007 میں 3,10,000۔
2004ء میں 20,669 افراد جو آئس لینڈ میں رہ رہے تھے، آئس لینڈ سے باہر پیدا ہوئے، لیکن ان کے والدین آئس لینڈکے شہری تھے۔ 10,636 افراد کے پاس دوسرے ممالک کی شہریت ہے۔ آئس لینڈ میں سب سے زیادہ پولس کے 7,000 افراد ہیں، 890 ولندیزی، 670 سابقہ یوگوسلاوین، 647 فلیپائینی اور 540 جرمن ہیں۔
سیاست
ترمیمجدید پارلیمان جسے آلتھنگ بھی کہتے ہیں، 1845ء میں قائم کی گئی تھی اور اس کی حیثیت ڈینش بادشاہ کی مشاورتی کونسل کی سی تھی۔ عمومی طور پر اسے 930 میں قائم ہونے والی اسمبلی کی نئی شکل کہا جاتا ہے اور جسے 1799ء میں معطل کیا گیا تھا۔ آج کل اس کے کل 63 ارکان ہیں۔ ہر ممبر کا انتخاب 4 سال کے لیے ہوتا ہے۔ آئس لینڈ میں صدر کا عہدہ نمائشی ہوتا ہے جو سفارت اور مملکت کے سربراہ کا کام کرتا ہے۔ لیکن اس کے پاس یہ اختیار بھی ہوتا ہے کہ یہ پارلیمان سے منظور ہونے والے کسی قانون کو روک کر عوامی رائے کے لیے پیش کر سکتا ہے۔
حکومت کا سربراہ وزیر اعظم ہوتا ہے جو کابینہ کے ساتھ مل کر حکومت کو چلاتا ہے۔ کابینہ کا تقرر صدر کی طرف سے آلتھنگ کے انتخابات کے بعد ہوتا ہے۔ تاہم عموماً یہ عمل سیاسی پارٹیوں کے سربراہ انجام دیتے ہیں جو یہ طے کرتے ہیں کہ کون کون سی پارٹیاں مل کر کابینہ کی تشکیل کریں گی اور اس میں نشستوں کی تقسیم کیسے کی جائے گی۔ صرف اس صورت میں کہ پارٹیوں کے سربراہ مناسب وقت میں کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکیں، صدر اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے کابینہ تشکیل دیتا ہے۔ جمہوریہ کی تشکیل یعنی 1944ء سے اب تک ایسا نہیں ہوا۔ لیکن 1942ء میں ایک بار غیر پارلیمانی حکومت قائم کی گئی تھی۔ لیکن یہ حکومت ایک ریجنٹ نے قائم کی تھی اور ریجنٹ کا تقرر آلتھنگ کی طرف سے کیا گیا تھا۔ ہر طرح سے ریجنٹ کا عہدہ صدر کے مساوی تھا۔ اس ریجنٹ کا نام بیورنسن تھا۔ 1944ء میں جمہوریہ کے قیام کے بعد یہ اس کے پہلے صدر بھی بنے۔
تقریباً ہمیشہ ہی آئس لینڈ کی حکومت دو یا زیادہ پارٹیوں کے اشتراک قائم کی جاتی ہے۔ صدر کے اختیارات کے حوالے سے آئینی ماہرین کی رائے مختلف ہے۔ کچھ ماہرین صدر کو کچھ اہم اختیارات دیتے ہیں لیکن کچھ ماہرین کی رائے اس سے مختلف ہے۔ آئس لینڈ میں دنیا میں سب سے پہلی خاتون صدر کا انتخاب 1980ء میں عمل میں آیا۔ ان کا نام ویگدس فنبوگادوتر ہے اور وہ 1996ء میں اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوئیں۔ ٹاؤن کونسلوں کے انتخابات، پارلیمان اور صدارتی انتخابات ہر چار سال بعد منعقد ہوتے ہیں۔ یہ انتخابات بالترتیب 2010ء، 2011ء اور 2008ء میں اگلی بار منعقد ہوں گے۔
مئی 2007ء کے پارلیمانی انتخابات کے بعد، موجودہ حکومت دائیں بازو کی آزاد پارٹی اور سوشل ڈیموکریٹک اتحاد جو وزیر اعظم گئیر ہارڈی کے تحت ہے، کی مدد سے بنائی گئی ہے۔ حکومت کوآلتھنگ میں واضح برتری حاصل ہے اور انھیں کل 63 میں سے 43 نشستیں ملی ہوئی ہیں۔
معیشت
ترمیمآئس لینڈ فی کس قوت خرید کی جی ڈی پی کے حوالے سے دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ پیداور رکھنے والا ملک ہے۔ انسانی ترقی کے حوالے سے یہ دنیا کا دوسرا بہترین ملک ہے۔ قابل تجدید توانائی کے ذخائر ملکی توانائی کا 70 فیصد حصہ رکھتا ہے اور ملک کے بارے کہا جاتا ہے کہ 2050ء تک یہ توانائی کے لحاظ سے خود مختار ہو جائے گا۔ اپنے آبی بجلی کے ذخائر اور ارضی حرارتی توانائی کے باوجود آئس لینڈ میں قدرتی ذخائر کا فقدان ہے۔ تاریخی طور پر اس کی معیشت کا عمومی دارومدار ماہی گیری پر رہا ہے اور ابھی بھی ملکی معیشت کا بڑا حصہ ماہی گیری سے حاصل ہوتا ہے۔ مچھلیوں کی کم ہوتی ہوئی تعداد اور بین الاقوامی مارکیٹ(منڈی) میں اس کی اہم برآمدات جیسا کہ المونیم اور فیروسیلیکان کی کم ہوتی ہوئی قیمت کی وجہ سے ملکی معیشت خطرے کا شکار ہے۔ اگرچہ آئس لینڈ کی معیشت ابھی تک ماہی گیری پر ہی انحصار کرتی ہے، سیر و سیاحت اور دیگر خدمات، ٹیکنالوجی اور دیگر صنعتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ماہی گیری کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے۔
دائیں اور بائیں بازو کی حکومت اپنی بجٹ کی کمی کی اور موجودہ خسارے کی پالیسی، بیرونی قرضہ جات میں کمی، معیشت میں تنوع اور نجکاری کی پالیسیوں کو جاری رکھنا چاہ رہی ہے۔ حکومت یورپی یونین میں شمولیت کی مخالفت کرتی ہے جس کی سب سے اہم وجہ ماہی گیری کے ذرائع آئس لینڈ کے ہاتھ سے نکل جانا ہے۔
آئس لینڈ کی معیشت میں تنوع پیدا کرنے کے لیے پچلی دہائی میں صنعت کاری خدمات کی صنعتیں اور موجودہ دور میں سافٹ وئیر کی تیاری، بائیو ٹیکنالوجی اور فنانشل سروسز کا اہم کردار ہے۔ سیاحت کا سیکٹر بھی تیزی سے پھیل رہا ہے جس میں ایکو ٹورزم اور وہیل کا مشاہدہ کرنا شامل ہیں۔ 2000ء اور 2002ء کے درمیان ترقی کی رفتار کچھ کم رہی لیکن معیشت نے 2003ء میں 4.3 فیصد اور 2004ء میں 6.2 فیصد کے حساب سے ترقی کی۔ شرح بے روزگاری 1.3 فیصد ہے جو یورپی اکنامک ایریا میں سب سے کم شرحوں میں شمار ہوتی ہے۔
ملکی بجلی کا نناوے فیصد حصہ پن بجلی اور ارضی حرارتی توانائی سے حاصل ہوتا ہے۔ ملک کا سب سے بڑا ارضی حرارتی توانائی کا مرکز نیسیاویلیر میں واقع ہے جبکہ کاراہنیوکر ڈیم ملک کا سب سے بڑا پن بجلی کا پلانٹ ہوگا۔
آئس لینڈ کی زرعی صنعت کا بڑا حصہ آلو، ہلدی، تازہ سبزیوں (گرین ہاؤس میں)، مٹن (بھیڑ)، ڈیری مصنوعات اور مچھلیوں پر مشتمل ہے -
آئس لینڈ کی کرنسی کو آئس لینڈک کرونا کہتے ہیں۔ آئس لینڈ کے سابقہ وزیر اعظم والگیرور سویریسڈوٹر نے 15 جنوری 2007ء میں ایک انٹرویو میں اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ آیا کیا وہ یورپی یونین میں شامل ہوئے بغیر یورو کو اپنا سکتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ بین الاقوامی یورو مارکیٹ میں ایک چھوٹی سی معیشت کا اپنی کرنسی اختیار کیے رکھنا کافی مشکل ہو سکتا ہے۔ بورگارٹن کو ریکیاوک کا معاشی مرکز ہے۔ اس میں بڑی تعداد میں کمپنیاں اور تین انوسٹمنٹ بینک موجود ہیں۔ آئس لینڈ کی سٹاک مارکیٹ، دی آئس لینڈسٹاک مارکیٹ 1985ء میں قائم ہوئی۔
مذہب
ترمیمآئس لینڈ میں آئین کے تحت ہر فرد کو مذہبی آزادی ہے۔ یہاں ویسے چرچ اور ریاست کو الگ نہیں سمجھا جاتا۔ آئس لینڈ کے قومی چرچ کو جو ایک لوتھیرین چرچ ہے، ریاستی چرچ کی حیثیت حاصل ہے۔ سرکاری طور پر ہر فرد کا مذہبی لگاؤ ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ 2005ء میں آئس لینڈ کے افراد کو درج ذیل کے مذہبی گروہوں میں تقسیم کیا گیا:
- 82.1 فیصد افراد آئس لینڈ کے قومی چرچ کے ارکان ہیں
- 4.7 فیصد افراد فری لوتھیرین چرچوں کے ارکان ہیں
- 2.6 فیصد افراد کسی مذہب کی طرف رحجان نہیں رکھتے
- 2.4 فیصد افراد رومن کیتھولک چرچ کی پیروی کرتے ہیں
- 5.5 فیصد افراد کسی خاص بیان کردہ مذہب سے نہیں تعلق رکھتے
باقی 2.7 فیصد افراد زیادہ تر 20-25 مسیحی فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ایک فیصد سے بھی کم آبادی غیر مسیحی ہے۔
ثقافت
ترمیمآئس لینڈ کی ثقافتی جڑیں وائیکنگ اور نورس روایتوں سے جا ملتی ہیں۔ آئس لینڈ کا ادب مقبول ہے بالخصوص ساگاز اور ایڈاز جو آئس لینڈ کی آبادکاری کے دوران لکھے گئے تھے۔ آئس لینڈ کے لوگوں کے خدوخال عام نارڈک نوعیت کے ہیں جو ناروے اور سوئیڈن کے لوگوں سے ملتے جلتے ہیں۔ مسیحیت قبول کرنے سے قبل تک یہاں بہت سارے وائی کنگ اعتقادات کو مانا جاتا تھا۔ آج بھی آئس لینڈ کے کچھ لوگ روحوں یا پریوں پر یقین رکھتے ہیں یا کم از کم ان کے وجود کا انکار نہیں کرتے۔ اسی طرح انسانی ترقی کے پیمانے پر آئس لینڈ کا درجہ بہت بلند ہے اور اسے دنیا کا چوتھا خوش ترین ملک گردانا جاتا ہے۔
عام خوراک عموماً مچھلی، بکری اور دودھ کی مصنوعات پر مشتمل ہوتی ہے۔ Þorramatur کو قومی خوراک کا درجہ حاصل ہے۔ اس میں کئی مختلف کھانے موجود ہوتے ہیں۔ اس کو روزانہ نہیں کھایا جاتا لیکن عموماً Þorri کے مہینے میں کھاتے ہیں۔ روایتی ڈشوں میں skyr، scrota, shark, بھیڑ کی سری اور بلیک پڈنگ شامل ہیں۔
حالیہ تبدیلیوں کے باوجود آئس لینڈ کے لوگ بحیثیت قوم، بہت صحت مند ہیں۔ بچے اور نوجوان مختلف کھیلوں میں حصہ لیتے ہیں۔ مقبول کھیلوں میں فٹبال، ٹریک اینڈ فیلڈ، ہینڈ بال اور باسکٹ بال شامل ہیں۔ گولف، ٹینس، تیراکی، شطرنج اور آئس لینڈی گھوڑوں پر گھڑسواری کرنا بھی کافی مقبول ہیں۔
آئس لینڈ مشہور ٹی وی چینل نک جونئیر کے اینیمیٹڈ پروگرام لیزی ٹاؤن کا گھر ہے۔ یہ بچوں کا ایک مقبول سلسلہ وار پروگرام ہے جو دنیا بھر کے 98 مختلف ممالک میں دکھایا جاتا ہے۔ آئس لینڈ "دی شوگر کیوب" نامی میوزک گروپ کا بھی وطن ہے جو 80 اور 90 کی دہائی میں بہت مشہور رہا تھا۔ Björk اس کی ایک مشہور رکن ہیں۔
1996ء میں پارلیمان نے ایک قانون کی منظوری دی جس سے ہم جنس رجسٹرڈ پارٹرشپ کو قانونی قرار دیا گیا ہے اور انھیں تقریباً عام شادی کے حقوق اور فوائد ملیں گے۔ 2006ء میں پارلیمان کے متحدہ ووٹ کی مدد سے ایک اور قانون منظور کیا گیا کہ ہم جنس پرستوں کو عام جوڑوں کی طرح یکساں حقوق ملیں گے جن میں بچہ گود لینا، بچے کی دیکھ بھال اور مصنوعی طریقے سے نطفے کی منتقلی شامل ہیں۔
فہرست متعلقہ مضامین آئس لینڈ
ترمیمویکی ذخائر پر آئس لینڈ سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "صفحہ آئس لینڈ في خريطة الشارع المفتوحة"۔ OpenStreetMap۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 دسمبر 2024ء
- ↑ https://eng.menntamalaraduneyti.is/media/MRN-pdf/Icelandic-Language-Act-tr-260711.pdf
- ↑ Population in the end of the 4th quarter of 2019
- ^ ا ب ناشر: عالمی بینک ڈیٹابیس
- ↑ http://data.worldbank.org/indicator/SL.UEM.TOTL.ZS
- ↑ ناشر: بین الاقوامی تنظیم برائے معیاریت — Codes for the representation of names of countries and their subdivisions—Part 1: Country codes — اخذ شدہ بتاریخ: 25 جون 2023